امریکی انتظامیہ نے ٹک ٹاک کے چینی مالکان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ایپ کو فروخت کر دیں ورنہ امریکہ میں اس پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
یہ بات ٹک ٹاک کے ترجمان بروک اوبرویٹر نے ایک بیان میں بتائی ہے۔
بروک کے بیان کے مطابق کمیٹی آن فارن انویسٹمنٹ ان یونائیڈ اسٹیٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ ایپ کے چینی مالکان اس کے تمام شئیرز فروخت کر دیں یا پھر اس پر ممکنہ پابندی کے لیے تیار ہو جائیں۔
امریکی عہدیداران اور قانون ساز اس خدشے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ٹک ٹاک کی وجہ سے امریکی صارفین کا ڈیٹا چینی حکومت کے پاس جا سکتا ہے۔
جو بائیڈن حکومت کے تحت پہلی بار ٹک ٹاک کو باقاعدہ پابندی کی دھمکی دی گئی ہے جس سے چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی بدگمانی کی عکاسی ہوتی ہے۔
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن امریکی عدالتیں رکاوٹ بن گئی تھیں۔
ٹک ٹاک ایک چینی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے اور امریکہ میں اس ایپ کے 10 کروڑ سے زیادہ صارفین ہیں۔
بائٹ ڈانس نے تصدیق کی ہے کہ اس کے 60 فیصد حصص عالمی سرمایہ کاروں کے پاس ہیں، 20 فیصد کمپنی کے ملازمین جبکہ 20 فیصد کمپنی کے بانی ارکان کے پاس ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت نے ٹک ٹاک سے امریکی مفادات کو پہنچنے والے نقصانات کے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔
ترجمان وزارت خارجہ نے بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکہ کو ڈیٹا سیکیورٹی کے متعلق ڈس انفارمیشن پھیلانے اور کمپنی پر دباؤ ڈالنے سے باز رہنا چاہیئے۔
یاد رہے کہ ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو شو زی چو نے اگلے ہفتے امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہونا ہے۔
دوسری جانب برطانوی حکومت نے سرکاری دفاتر میں ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی انتظامیہ نے بھی حکومتی ایجنسیوں کو 30 دن کی مہلت دی تھی کہ وہ وفاقی ڈیوائسز اور سسٹمز میں سے ٹک ٹاک کو ہٹا دیں۔
اس سے قبل کینیڈا، بیلجیم اور یورپی ممالک نے اس ایپ پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ آسٹریلوی حکومت نے طویل بحث کے بعد اس پر مکمل پابندی نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ٹک ٹاک لاکھوں امریکی نوجوانوں کی مقبول ترین ایپ ہے جس کی وجہ سے اس پر پابندی کے قانونی اور سیاسی مضمرات ہوں گے۔
ٹک ٹاک اور امریکی انتظامیہ دو برسوں سے ڈیٹا سیکیورٹی کے مسئلے پر مذاکرات کر رہے ہیں، ٹک ٹاک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ڈیٹا کی سیکیورٹی کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کر چکے ہیں، انہوں نے جاسوسی کے الزامات کو بھی رد کر دیا ہے۔