ارشد شریف۔۔ لانگ مارچ کی علامت

Date:

ترجمہ : مجاہد خٹک

‘یہ بہترین وقت تھا اور ساتھ ساتھ بدترین وقت بھی تھا، یہ دانش کا دور بھی تھا اور حماقتوں کا دور بھی تھا، یہ وقت یقین کی معراج بھی تھا اور بےیقینی کی معراج بھی تھا، یہ روشنی کا موسم بھی تھا اور یہ تاریکیوں کا موسم بھی تھا، یہ امید کی بہار بھی تھی اور مایوسی کا موسم سرما بھی تھا’ چارلس ڈکنز

ارشد شریف رخصت ہو گیا، وہ مقاصد سے خالی زندگی پر آدرش سے جڑی موت کو ترجیح دینے والوں میں سے تھا۔ میں نے اسے دوطرفہ فائرنگ کے بیچ ، میدان جنگ میں، اپنے سپاہیوں کے درمیان، لڑائی میں اور مشکل ترین حالات میں دیکھا ہے۔ وہ میرا دوست تھا، ساتھی تھا اور چھوٹا بھائی تھا۔ وہ جرات کی جیتی جاگتی مثال تھا، اخلاقی جرات اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی اور اس کے دل میں مہم جوئی کا بسیرا تھا۔

اس کے یقین میں ہمدردی تھی اور وہ اقدار سے جڑا رہتا تھا، وہ سچا اور دیانتدار انسان تھا، وہ وعدوں کی پاسداری کرنے والا تھا، اس نے اپنے اصولوں کی خاطر موت کو قبول کر لیا اور وہ آخری سانس تک ان اقدار پر قائم رہا جن پر وہ یقین رکھتا تھا۔

ارشد شریف کو ایسے بے ضمیر، غیراہم لوگوں نے مار گرایا جنہوں نے مجرمانہ بے حسی اور ظالمانہ عامیانہ پن سے امید کا چراغ بجھا دیا، بے شمار انسانوں کی آواز کو خاموش کر دیا جو سچائی اور حقیقت کی نمائندہ تھی۔ اس کا قتل ان محب وطن لوگوں کے اشارے پر کیا گیا جو اپنی حقیقت کھلنے پر قتل کر دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

حالیہ تاریخ میں گلزار احمد، مزمل راجہ، غلام شبیر، مقصود چپڑاسی، ڈاکٹر رضوان اور عمران رضا کو خاموش کرا دینا اس بات کی شہادت ہے کہ آج ہمیں مصنوعی حکومت میں بیٹھے کیسے کرداروں سے واسطہ پڑا ہے اور ساتھ ہی وہ لوگ بھی جنہوں نے اس بہیمانہ اقدام سے فائدہ اٹھایا ہے۔

لیکن پھر ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں جمہوری نظام، سیاسی انتظام اور انتظامی ڈھانچے کا دکھاوا قائم ہے، جس میں سوائے عوام پاکستان کے ہر شخص محب وطن اور اچھا مسلمان ہے۔

یہ لوگ حب الوطنی کا درجہ کم کر کے فقط اس شخص تک لے آئے ہیں جو اپنی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے ملک سے محبت کرتا ہے۔ اس کی مثال وہ انتہاپسند ہے جس کا علم فقط اس کی ذات تک محدود ہے اور جو اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ پاکستان میں جن دو چیزوں کی کثرت ہے وہ محب الوطن اور کٹر پن کے حامل لوگ ہیں۔ جہالت کو علم کی کمی اور شعور کے مکمل فقدان نے پروان چڑھایا ہے۔

اوسط پاکستانی کا سیاسی سرگرمیوں کے متعلق نکتہ نظر فقط ‘ہم’ اور ‘وہ’  تک محدود ہے جس میں رائے، نکتہ نظر اور آواز بلند کرنے کا حق صرف ‘ہم’ رکھتے ہیں جبکہ ‘وہ’ کو سناٹوں کے سپرد کرنا اور غیراہم پریشانی گردانتے ہوئے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

یہ دو انتہاؤں پر کھڑا سماج ہے جو نظریہ، نسل اور سیاست کی بنیادوں پر منقسم ہے، چیزوں کو سیاہ اور سفید کی شکل میں دیکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو منہ سے جھاگ اڑاتے مجمع کی شکل میں تبدیل کر دینا بہت آسان ہے کیونکہ ان کی محدود ذہانت کو بے ضمیر قائدین استعمال کر سکتے ہیں تاکہ اپنی حقیقی یا خیالی توہین کا بدلہ لے سکیں۔ درحقیقت یہ رہنما اپنی اہمیت بڑھانے اور اپنی اپنی چھوٹی سی دنیاؤں میں جگہ بنا رہے ہوتے ہیں۔

نامور تاریخ دان ایڈورڈ گبن نے لکھا تھا کہ کرپشن آئینی آزادی کی یقینی علامت ہے۔

مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کون سا رہنما اچھا ہے اور کون سا برا ہے۔ میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ایک رہنما اپنے پیروکاروں کی اخلاقی اور عقلی سطح تک ہی اوپر اٹھ سکتا ہے، اس سے آگے نہیں جا سکتا۔ کوئی اچھا برا رہنما نہیں ہوتا، معاشرے ایک ایسی منتخب قیادت کے ذریعے اپنی اقدار کو آگے بڑھاتے ہیں جو اس معاشرے کے مفادات کی نگرانی کر سکے۔

اس لیے جب میں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ تمام قیادت بدعنوان ہے، کسی کی احسان مند ہے یا جس نے سمجھوتے کیے ہوئے ہیں تو میری مراد یہ تھی کہ ہم اس قسم کے لوگ ہیں اور اسی طرح کی قیادت کے خواہشمند ہیں۔ جواب میں ہر کسی نے الفاظ کی گولہ باری شروع کر دی اور ڈھیروں لوگ خفا ہو گئے کہ میں نے ایک بے حس قسم کا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔

میں اپنی بات پر قائم ہوں اور جس طرح واقعات نمودار ہو رہے ہیں میری بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ارشد شریف کی وفات نے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے اور وہ ایک تبدیلی کی راہ تک رہے ہیں جو کسی بھی شکل میں ہو لیکن اس سے مختلف ہو جو ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ کسی قسم کی سنسرشپ، سزائیں، لوگوں کوخاموش کرا دینا، میڈیا کو خوفزدہ کرنا۔۔ ان میں سے کوئی بھی حربہ اب کام نہیں کرے گا کیونکہ اب وقت حساب آ چکا ہے۔

اچکزئی ایک کانسٹیبل کو کچل دیتا ہے، یہ واقعہ کیمرے کی گرفت میں بھی آ جاتا ہے، اس کے باوجود ناکافی شواہد کی بنیاد پر معزز جج اسے رہا کر دیتے ہیں، یہی کچھ شاہ رخ کے معاملے میں ہوتا ہے جسے اپنے دوست کے قتل کے جرم میں بری کر دیا جاتا ہے۔ دنیا ہماری عدالتوں کو 139 ممالک میں سے 130 ویں درجے پر فائز کرتی ہے لیکن پاکستان میں مقدس شعلہ بیانی کے ساتھ تبلیغ کی جاتی ہے کہ عوام کو عدالتوں کا احترام کرنا چاہیئے۔ کس لیے ایسا کیا جائے؟ ہمارا وزیر داخلہ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی 14 اموات میں ملوث ہے، اس سانحے کا بھی دیگر کئی واقعات کی طرح فیصلہ نہیں ہو سکا، تو کیا اس بے بس قوم کو انصاف کی توقع رکھنی چاہیئے؟

ارشد شریف کو قتل کر دیا گیا، وعدے کیے گئے، تبصرے جاری ہیں لیکن میں یہ بات پورے تیقن کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ہمیشہ کی طرح کچھ نہیں ہو گا، کوئی نہیں پکڑا جائے گا، اس مملکت اسلامیہ میں آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔ یہ ایک ایسی سرزمین ہے جہاں مسلمان کثرت سے آباد ہیں لیکن اسلام کہیں نہیں نظر آتا، جہاں خدا کا نام فروخت کیا جاتا ہے اور مذہب پر سیاست کی جاتی ہے، جہاں مسجدیں آباد ہیں لیکن گلیوں میں کوئی بچہ محفوظ نہیں اور جہاں کوئی بھی گناہ اور جرم میں تمیز نہیں کر سکتا۔ اس معاشرے پر منافقت کی حکمرانی چلتی ہے، یہاں بس کھوکھلے نعروں کے ذریعے عوام کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔

ٹی ٹی پی ایک بار پھر ابھر رہی ہے، لوگوں نے اسلحہ اٹھا لیا ہے لیکن یہ بات نوشتہ دیوار تھی۔ اس مسئلے کے ساتھ جس بھدے طریقے سے کھیلا گیا اس کی نشاندہی کئی ماہ پہلے کی جا چکی تھی، میڈیا پر انتباہ بھی چلتا رہا لیکن کسی نے پرواہ نہیں کی، کسی نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی۔ اب حالت یہ ہے کہ جس عمل کو شروع کیا گیا تھا اس کی ملکیت لینے کو کوئی تیار نہیں ہے، لیکن جو بے شکل چہرے اس کے ذمہ دار تھے وہ اپنی مجرمانہ گمنامی سمیت ہمیشہ کی طرح کسی تاریک گوشے میں چھپ گئے ہیں۔

یہ ایسے تیز طرار کلرک ہیں جو اپنی عظمت کے اوہام کے اسیر ہیں، انہیں کبھی اپنی دانش کے احمقانہ موتی بکھیرنے کے لیے پیچھے نہیں چھوڑ جانا چاہیئے، انہوں نے ملک میں شدید دکھ و الم پیدا کر دیا ہے۔ تنکوں سے بنے چھوٹے لوگ جو اپنی اہمیت کی جستجو میں لگے ہیں جبکہ ہم بے یقینی کا عوامی چہرہ بنے، ششدر ہو کر ان لوگوں کے تخلیق کیے گئے ایک کے بعد دوسرے احمقانہ واقعہ کا مشاہدہ کر رہے ہیں، یہ لوگ قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی ایک ایسے ماحول کی پیداوار ہے جہاں انصاف فقط اپنے غیاب کے باعث نمایاں ہے۔ ہاتھ نہ آنے والے اس انصاف کی تلاش میں متوازی نظام حکومت وجود میں آ چکے ہیں، اس کے باعث دیگر عناصر کو جگہ مل گئی ہے جو فوری انصاف کا دکھاوا کر کے اپنی راست بازی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ملک اس وقت حکومت، انتظامی اقدامات اور امن و امان کے شعبوں میں انحراف اور تضادات کی طغیانی کا سامنا کر رہا ہے۔ قانون کے ضوابط اور ان پر عمل ناہموار ہے، ہر چیز سیاست زدہ ہو چکی ہے جبکہ پورا نظام تعصب اور یکطرفہ جھکاؤ میں مبتلا ہو چکا ہے۔ قانونی ذرائع مکمل ناپید ہیں اور اگر ہم اسی طرح چلتے رہے تو لوگ ٹی ٹی پی کو اس وعدے پر خوش آمدید کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان خرابیوں کا مداوا کریں گے جن کا عام آدمی روزانہ شکار ہوتا ہے۔ نظام کے بوجھ تلے دبے عوام اس سے نجات کے منتظر ہیں چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔

جمعہ کو شروع ہونے والا لانگ مارچ فقط لوگوں کا اجتماع یا ہجوم کا اکٹھ نہیں ہے، یہ عوام کے مجموعی جذبات، اظہار اور تبدیلی کا آوازہ ہے، یہ داغدار الیکشن کمیشن سے بریت کا نقارہ ہے، یہ مفلوج نظام انصاف کے خلاف عوامی بیان ہے، یہ مجرموں سے بھری حکومت کے خلاف اعلان جنگ ہے، یہ متعصب انتظامیہ کے خلاف شکوہ ہے، یہ قوانین پر عملدرآمد کے نظام کے خلاف الزام ہے، اور یہ ان بے چہرہ لوگوں کے خلاف فرد جرم ہے جو دور بیٹھے پس منظر سے ڈوریاں ہلا رہے ہیں، جو اثرانداز ہو رہے ہیں، جبر پھیلا رہے ہیں، رشوتیں دے رہے ہیں اور ہدایات صادر کر رہے ہیں۔

ارشد شریف اس لانگ مارچ کا علم بنے گا، وہ زندگی سے بھی بڑا مظہر ہو گا، وہ اس انصاف، اخلاقی اقدار، انسانیت دیانت داری اور سچائی کی شہادت بنے گا جس کے لیے قوم ترس رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے بھی بغاوت پر اکسانے یا انتشار اور گڑبڑ پھیلانے کا ملزم قرار دیا جائے ۔۔۔ جیسا کہ آج کل معمول بن چکا ہے۔۔۔ لیکن میں اس موقع سے منہ نہیں موڑ سکتا جبکہ اس کی آواز کو پھیلانے کی ضرورت ہے اور لاکھوں دیگر افراد کی طرح میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں ارشد۔ نہ ہی آسانی سے تمہیں بھلایا جائے گا اور نہ ہی تمہارے قاتلوں کو معاف کیا جائے گا۔

مجھے یقین ہے کہ یہ لانگ مارچ کامیاب ہو جائے گا لیکن اگر بدانتظامی یا کمزور تنظین کے باعث یہ ناکام ہو گیا تو ٹی ٹی پی یا منظور پشتین جیسے لوگوں کو یاد رکھیے جو لانگ مارچ کی ناکامی کی صورت میں اپنے وعدوں سمیت منتظر کھڑے ہیں۔ مجھے پی ٹی آئی کی قیادت سے یہ لازمی کہنا ہے کہ اگر جلد انتخابات کے مطالبے کو مان بھی لیا جائے پھر بھی لانگ مارچ جاری رہنا چاہیئے۔

بات اب جلد انتخابات سے آگے بڑھ چکی ہے، اب بہت سے باب بند کرنے ہیں۔ ایک ایسی مصنوعی حکومت کو ہٹانا ہو گا جس نے جعلی جواز کے سہارے، انفرادی اخلاقی اقدار کی نیلامی کے بل بوتے پر اور قومی کردار کی لوٹ سیل کے ذریعے پاکستان پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہم اب مجرموں کے فریبی گروہ کے مزید قیدی نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ ایسے چھوٹے لوگ ہیں جن کی روحیں قابل فروخت ہیں۔ ہم اب آزاد ہونا چاہتے ہیں۔

ارشد شریف نے ہمیں عوامی طاقت کے اظہار کا موقع فراہم کر دیا ہے، اگر ہم نے سچائی اور جائز طریقے سے منتخب لوگوں کے ذریعے اس ملک پر حکومت کرنے اور اسے چلانے کا ہنر نہ سیکھا تو ہم متفقہ طور پر دوسرے عناصر کے سامنے حق حکمرانی سے دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ ایک ناکام لانگ مارچ کے نادانستہ نتائج ہوں گے۔ یہ دوسرے عناصر ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم ہوں گے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی قومیت اور حق شہریت کے مطالبے میں شریک ہوں۔ ہم سب پیدائشی طور پر برابر کے حقوق کے حقدار ہیں، اور کوئی بھی کسی دوسرے سے زیادہ برابر نہیں ہے۔ ژاں ژاک روسو کے الفاظ میں ‘انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے’۔

غالب امکان ہے کہ اس لانگ مارچ کے اختتام پر ملک بچ جائے گا ، اس لیے میں کہتا ہوں کہ تاریخ کو محفوظ رکھا جائے۔ ایک قرطاس ابیض لازمی لکھا جانا چاہیئے جو گہرائی میں جا کر بیان کرے کہ ہم اس مقام پر کیسے پہنچے جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ اس کا مقصد الزام تراشی نہ ہو بلکہ وجوہات دریافت کرنا ہو۔ اسی طرح سچائی اور دیانت داری کے ذریعے ہم بطور قوم اپنا وقار بحال کر سکتے ہیں اور ہمیں حقیقی آزادی مل سکتی ہے۔

ہم اپنے اندر معافی کی گنجائش تو تلاش کر سکتے ہیں لیکن ہم بھول نہیں سکتے اور جن لوگوں نے ہمارے ملک کے ساتھ یہ سب کیا ہے انہیں آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی، یہ مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک سبق ہو گا کہ وہ بے وفائی، دغابازی اور بغاوت کو اس کی حقیقی شکل میں پہچاننے کے قابل ہو سکیں۔

جب ہم بطور قوم آزاد ہو جائیں گے، اس ناجائز حکومت کی زنجیریں بکھر چکی ہوں گی، جب ایک بدعنوان انتظامیہ گھر بھیجی جا چکی ہو گی اور جب جھوٹے قائدین اپنی مفادات پر مبنی دانش کے موتیوں سمیت آرام کر رہے ہوں گے، تب ہم ایک بار پھر سے سانس لینے کے قابل ہو سکیں گے، ہم دوبارہ بول سکیں گے۔ تب میڈیا بھی آزاد ہو سکے گا، معلومات تک رسائی ممکن ہو گی اور ہم بھی مواقع سے بھرپور ایسی سرزمین کا رتبہ حاصل کر سکیں گے جہاں ہر کوئی آزادی سے زندہ رہے گا اور کوئی بھی کمتر نہیں سمجھا جائے گا۔

‘ایسے گروہ پر کسی کو اعتماد نہیں کرنا چاہیئے جو کسی کو بھی جوابدہ نہ ہو’ تھامس پین

Tariq Khan HI(M)
Tariq Khan HI(M)http://narratives.com.pk
The writer is a retired Lt General of the Pakistan Army. He is noted for his services as the Commander of I Strike Corps at Mangla and Inspector General of the Frontier Corps.

Share post:

Subscribe

Popular

More like this
Related

عمران خان کا لانگ مارچ سے خطاب، اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان

راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے...

پولیس نے پی ٹی آئی کو فیض آباد کے قریب اسٹیج بنانے سے روک دیا

پولیس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر...

ارشد شریف کا قتل ایک سازش، نئے انکشافات سامنے آ گئے

ارشد شریف کا قتل ایک سازش، نئے انکشافات سامنے...

عمران خان کا لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے اعلان...