چینی صدر کے دورہ سعودی عرب کے پانچ اہم پہلو

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

چینی صدرشی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے دوران جہاں کئی اہم معاہدے ہوئے وہیں خلیجی ممالک کے ساتھ سمٹ کانفرنسز بھی جاری رہیں۔

اس دورے سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مستقبل میں چین اور سعودی عرب کے تعلقات نئی بنیادوں پر قائم ہونے جا رہے ہیں۔

اب تک کی پیشرفت کو دیکھا جائے تو دورے کے پانچ اہم ترین نتائج سامنے آئے ہیں جن کے بین الاقوامی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

سعودی عرب اور چین کا زیادہ تر پالیسیوں پر ہم آہنگی

چینی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران 4 ہزار الفاظ پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر معاملات پر دونوں ممالک میں ہم آہنگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

خلائی تحقیقات، ڈیجیٹل معیشت، ایران کے جوہری پروگرام، یمن میں جاری جنگ اور روس یوکرین تنازع پر چین نے بنیادی پالیسیوں پر سعودی عرب سے اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے۔

دونوں ممالک کے سربراہان نے جوہری توانائی کے پرامن استعمال اور مصنوعی ذہانت اور توانائی کے شعبے میں جدت جیسی جدید ٹیکنالوجی میں تعاون پر اتفاق کیا۔

دونوں ممالک کے سیکیورٹی اور تیل کے معاملات پر بڑے منصوبے

گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان یہ غیرتحریری معاہدہ قائم رہا ہے جس کے مطابق سعودی عرب تیل کی فراہمی یقینی بنائے گا جبکہ امریکہ فوجی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کی ایران اور دیگر علاقائی حریفوں کے مقابلے میں حمایت جاری رکھے گا۔

تاہم حالیہ مہینوں میں سعودی عرب اس معاہدے سے دور ہٹتا نظر آیا ہے اور وہ عالمی منظرنامے پر یک رخے تعلقات کی جگہ تنوع کی پالیسی اختیار کر رہا ہے۔

چینی صدر نے خلیجی تعاون کونسل کے ساتھ سمٹ کے دوران یقین دہانی کرائی کہ وہ ان ممالک سے بھاری مقدار میں خام تیل اور قدرتی گیس کی درآمد جاری رکھے گا۔

سی این این کے مطابق خطے میں امریکہ کی کم ہوتی موجودگی سے پریشان سعودی عرب اور خلیجی ممالک اب ہتھیاروں کی خریداری کے لیے مشرق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

اندرونی معاملات میں عدم مداخلت

  چین نے 1950 کی دہائی میں یہ اصول طے کیا تھا کہ وہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

اس کا اطلاق 1954 میں چین، بھارت اور میانمار کے درمیان بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت شروع ہوا جسے بعد میں ان ممالک تک پھیلا دیا گیا جو سرد جنگ کے دوران غیرجانبدار رہے تھے۔

موجودہ حالات میں سعودی عرب اسی اصول کو عالمی طاقتوں کی کشمکش کے پس منظر میں اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

سعودی عرب کو شکوہ رہا ہے کہ مغرب حقوق انسانی کے نام پر اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا ہے، چین کو بھی مغربی ممالک سے یہی شکایت رہی ہے۔

چینی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک نے اسی اصول کو غیراعلانیہ طور پر اختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

فی الحال پٹروڈالر سے علیحدگی اختیار نہیں کی جائے گی

اپنے دورے میں چینی صدر نے خلیجی ممالک سے تیل اور گیس کی خریدوفروخت کے لیے چینی کرنسی اختیار کرنے کی بات کی تھی تاہم اس معاملے میں ابھی تک کوئی اعلان نہیں ہوا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر چین اور سعودی عرب کے تعلقات بڑھنے کا منطقی نتیجہ ڈالر کے بجائے یوان میں خریداری کی صورت میں سامنے آئے گا لیکن اس اہم اقدام تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا۔

امریکہ کی ناخوشی واضح ہے

اگرچہ امریکہ نے چینی صدر کے دورہ پر واضح تبصروں سے اجتناب کیا ہے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے اس معاملے پر سخت پریشانی پائی جاتی ہے۔

یونیورسٹی آف شارجہ کے اسسٹنٹ پروفیسع شاؤجن شائی نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چینی صدر کے دورے نے خطے میں امریکہ کے کم ہوتے اثرورسوخ کا اشارہ دے دیا ہے۔

تاہم سعودی وزیرخارجہ پرنس فیصل بن فرحان السعود نے جمعہ کو پریس کانفرنس میں اس تاثر کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک تمام فریقوں سے تعاون پر توجہ دے رہا ہے۔

انہوں نے مقابلہ کو اچھی چیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں مقابلے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ پارٹیوں سے تعاون بھی بہت ضروری ہے۔

- Advertisement -
مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین

ٹک ٹاک بیچ دو ورنہ پابندی کے لیے تیار ہو جاؤ، امریکی دھمکی

امریکی انتظامیہ نے ٹک ٹاک کے چینی مالکان سے...

امریکہ سعودی تعلقات میں بگاڑ کے دوران چینی صدر کا دورہ سعودی عرب

سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے چینی صدرژی...