اچھا خاصا جی تو رہا ہوں

Date:

یہ لاہور ہے۔ اس میں آج کل زمان پارک کا زور ہے۔ ہر طرف آنسو گیس، لاٹھی،گولی کی سرکار  کے نعرے اور زہریلے پانی کی بارش کا شور ہے۔  سنگ باری ہے، ڈنڈا برداری ہے۔ کبھی ایک کی تھی آج دوسروں کی ناز برداری ہے۔  نتیجہ الزام ہے ، دشنام ہے، جبر ہے، جور ہے، تشویش ہے، خوف  کا اک دور ہے۔ لیکن منفی خبروں کے اس نئے منظر نامے میں بھی کچھ خبریں مثبت اور خوشگوار ہیں۔ رنگا رنگ اور پُر بہار ہیں۔ ماضی میں بھی مثبت خبروں پر اصرار تھا ، آج بھی انہی کا انتظار ہے۔ تو لیجیے پہلی مثبت خبر یہ ہے۔

پی ٹی آئی کے الزامات اور عوام کے منفی تبصروں کی زد میں رہنے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک مثبت خبر کو جنم دیا ہے۔ الیکشن کی تیاری میں کمزور، شفافیت میں کم کوش قرار پانے والے اس ادارے نے صوبہ پنجاب میں انتخابی گہما گہمی بڑھانے کا اہتمام کر دیا ہے۔

یہ اہتمام صوبائی اسمبلی کے نئے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں دو دنوں کے لیے اضافے کے ذریعے کیا گیا۔ بلاشبہ یہ زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو انتخابی دوڑ میں شرکت کا موقع دینے کے لیے کیا گیا۔ ایک مثبت اور عوامی خیرخواہی کا قدم۔ بظاہر یہ بے طلب نصرت و عنایت ہے۔ 

اس سے جڑی دوسری مثبت خبر بھی سن لیجیے۔ میاں نواز شریف ملک کے پریشان حال اور مہنگائی کے مارے عوام تقریباً سوا تین برسوں سے سراپا انتظار ہیں کہ مسیحا بن کر آئیں اور دکھوں کا مداوا بن جائیں۔ وہ تو نہیں آئے کہ ابھی لندن میں بیمار ہیں ، لاچار ہیں یا پھر ڈاکٹروں کے اطمینان سے زیادہ اپنی صاحبزادی کے اطمینان بخش اشاروں کے لیے سراپا انتظار ہیں۔

البتہ انہوں نے عوام کی مسیحائی کے لیے اپنے انتہائی بھروسے کے ساتھی ناصر بٹ کو پاکستان پہنچنے کا حکم دیا ہے۔ ناصر بٹ لندن میں ذرا لیٹ ہوگئے تھے۔ اس لیے اب الیکشن کمیشن کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کے اعلان سے فیض یاب ہو سکنے کی امید کے ساتھ آئیں گے۔ گویا ان کے لندن سے راولپنڈی پہنچنے سے پہلے ہی الیکشن کمیشن نے انہیں جی آیا نوں، ست بسم اللہ کہہ دیا ہے۔ چلو کچھ تو  ‘ میدان ہمواری’ کی صورت بنی۔ وفاقی وزارت داخلہ نے بھی  ناصر بٹ کے جاری کردہ ‘ریڈ وارنٹ ‘ واپس لے لیے ہیں۔

عوام کے وقت خوش خوش کاٹنے کے لیے مثبت خبر یہ بھی ہے کہ حکومت اور اس کے معاون اداروں نے ملک میں مساوات انسانی کے اصول کی کارفرمائی کا کھلے عام اظہار کر دیا ہے۔ یہ مساوات پروری صدر مملکت عارف علوی کے فون ٹیپ کر کے کی گئی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ‘پنجاب سپیڈ ‘ کے تحت صدر مملکت کی ریکارڈ کردہ اس فون کال کو فوراً میڈیا اور عوام  کے لیے پبلک بھی کردیا گیا ہے۔ بڑی امید ہے کہ یہ سلسلہ مساوات ناصر بٹ کے پاکستان پہنچنے یا اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد مزید تیز ہوگا۔ یقیناً سوشل میڈیا کے اس دور میں جس سیاسی یا عسکری قیادت کے ہاتھ میں آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا قابل لحاظ اثاثہ نہیں ہوگا وہ خاک سیاست کر سکے گی۔

ایک اور مثبت خبر یہ آئی ہے کہ 24 سے 28 گھنٹے تک لگاتار آنسو گیس اور زہریلے پانی کی بارش کرنے والی پنجاب پولیس کو ریسٹ دینے کے لیے نگران حکومت نے پی ایس ایل کا بھی لحاظ کیا ہے۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے پولیس اور اس کی مدد کو آنے والی رینجرز کی کمپنیوں کو بھی زمان پارک کے محاذ کے آخری مورچوں سے  پیچھے بلا یا جا چکا ہے۔  تازہ اطلاعات کے مطابق ‘امپورٹڈ ‘چیزوں کی  حالیہ بدنامی کے بعد امپورٹ اور ایکسپورٹ پر لگائی گئی قدغنوں کے باعث فارغ پڑے کینٹینروں کو  زمان پارک میں استعمال میں لایا گیا ہے۔

حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف منفی اقدامات کے بجائے سیاسی ماحول کی بہتری کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے ایک جانب حکومتی کارکردگی اور ترجیحات کا پتہ چلتا ہو اور دوسری جانب اپوزیشن کو فائدہ ہو۔ اپوزیشن کا قد بڑھے اور اس کے ووٹ بنک میں اضافہ ہو۔ تاکہ کم از کم اپوزیشن کو یہ شکایت نہ رہے کہ اس کی بات عوام تک پہنچانے اور اس کے پیغام کو عام کرنے میں حکومت رکاوٹ ہے۔ اپوزیشن دوستی کا یہ حکومتی پراجیکٹ، ڈالر، پیٹرول، ڈیزل بجلی اور آٹے گھی کی قیمتوں کی طرح خوب تیزی سے اوپر جا رہا ہے اور حکومت اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔ گویا حکومت نے ‘ایون فیلڈ ‘کے فلیٹوں کی تفصیلات تک اپوزیشن کو رسائی نہیں دی تو کم از کم ‘ ایون فیلڈ’ تو دے دیا ہے۔

مثبت خبریں اور بھی بہت سی ہیں۔ مگر فی الحال صرف ایک دو مزید پیش کی جائیں گی۔ ایک خبر خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے حوالے سے ہے۔ اس سے پہلے مریم نواز اور مریم اورنگ زیب اکیلی عدلیہ کے پلڑے برابر کرنے کے لیے آواز اٹھا رہی تھیں۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات کی تصاویر اسی مقصد کے لیے لہرائی گئی تھیں۔ خوشگوار بات ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس میدان میں اب خود اترے ہیں۔ انہوں نے پوری بے خوفی کے ساتھ عدالتی رویے کو ریاستی کمزوری کا باعث قرار دے دیا۔ مولانا کے پلڑے میں کودنے سے یقیناً برکت آئے گی اور موقف کا وزن بھی خوب بڑھے گا۔

مولانا نے قانون کی بالادستی اور ‘قانون سب کے لیے’ کے فلسفے پر بھی بیعت کر لی ہے۔ اب وہ اس واقعے کو ماضی کا قصہ سمجھ کر بھولنا چاہتے ہیں جو 22 ستمبر 2020 کو نیب کی طرف سے انہیں ایک سمن بھجوانے سے شروع ہوا تھا۔ سمن میں کہا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اپنی آمدنی سے بڑھ کر اثاثوں کے بارے میں انکوائری کے لیے نیب میں آئیں۔ نیب میں انہیں ایڈیشنل ڈائریکٹر اسرار الحق کے سامنے پیش ہونا تھا۔ مگر انہوں نے اپنے کارکنوں کی کثیر تعداد کی دھمکی کے زور سے نیب کو زیر کر دیا تھا جس کے بعد نیب کو چپ سادھنا پڑ ی تھی۔

اب مولانا نے اداروں کے احترام کے حق میں پریس کانفرنس میں عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے کا مشورہ دیا ہے،  نیز کارکنوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے پر اظہار برہمی کیا ہے۔ مولانا سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ کارکنوں کی جانثاری اور قوت کا کمال کیاہوتا ہے۔ ان کی نیب میں طلبی کے سلسلے میں آنے والے سمن انہوں نے یا ان کے اہل خانہ نے اسی لیے کبھی وصول نہیں کیے تھے کہ اس کے بعد کارکنوں کے غصے کو روکنا مشکل ہو سکتا تھا۔ جیسا کہ راشد سومرو نے فوری اعلان کر دیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو نیب میں بلایا گیا تو مولانا اکیلے نیب نہیں جائیں گے۔ ان کے ساتھ  30 لاکھ کارکن بھی نیب جائیں گے۔ اس لیے مولانا کی رہائش گاہ پر نیب کا سمن وصول کیا گیا اور تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔

اس سے زیادہ مثبت خبروں کا دور کیا ہوگا کہ میاں شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم واضح کر دیا ہے کہ عمران خان کے عدالت سے وارنٹ جاری ہونے یا ان کی گرفتاری سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف کی شروع سے عادت ہے کہ وہ اس طرح کے کیسز میں پڑنا پسند ہی نہیں کرتے۔ کسی کو یقین نہ ہو تو مرحوم مقصود چپڑاسی اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر مرحوم رضوان کے اہل خانہ سے پوچھ لے۔

 مثبت خبریں آنے کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ اس لیے جلد ہم سب کو ہر ا ہی ہرا نظر آئے گا۔ ہر طرف سب اچھا کی رپورٹ ہوگی۔ راوی چَین ہی چَین لکھے گا اور نیرو بانسری بجاتا جائے گا۔ جیساکہ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے 1500 روپے کا نیا نوٹ جاری کر دیا ہے۔ گویا اب سبزی دال خریدنے کے لیے ایک ہی نوٹ کافی ہوجائے گا۔ کئی نوٹ جیب میں رکھنا پڑیں گے اور نہ ہی گنتی اور ریزگاری کا جھنجٹ رہے گا۔  اتنی ساری مثبت  حقیقتوں میں تھوڑے سے تصرف کے ساتھ   حفیظ جالندھری مرحوم یاد آئے

جینا اور کسے کہتے ہیں، اچھا خاصا جی تو رہا ہوں

غم موجود ہے، آنسو بھی ہیں، کھا تو رہا ہوں پی تو رہا ہوں

Share post:

Subscribe

Popular

More like this
Related

لاہور ہائیکورٹ میں عمران خان کی 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور

لاہور ہائی کورٹ نے جمعے کو پاکستان تحریک انصاف...

دو مقدمات میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے دو...

بلوچستان ہائیکورٹ: عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل

بلوچستان ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران...

عمران خان کا دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کا اعلان

چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے لاہور میں دفعہ...