ورلڈ بنک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی تباہی کو روکنے کے لیے اگلے 8 برسوں میں 348 ارب ڈالرز کی ضرورت ہو گی۔
عالمی بنک کی کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق یہ رقم 2023 سے 2030 کی درمیانی مدت میں درکار ہو گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیات سے متعلقہ شدید واقعات، ماحولیات کی خرابی اور فضائی آلودگی کے باعث 2050 میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 18 سے 20 فیصد کمی آئے گی۔
عالمی بنک کی رپورٹ میں پانچ شعبوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جہاں کام کرنے سے ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکا جا سکتا ہے۔
ان میں سے پہلا شعبہ زراعت اور اسے پیدا ہونے والی خوراک ہے جس میں زمین کا خراب ہوتے جانا، کیمیائی ادویات اور پانی کی زیادتی اور تحقیق کے نہ ہونے کے باعث کمی واقع ہو رہی ہے۔ 2050 تک خوراک میں 50 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔
دوسرا شعبہ شہری آبادی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور جسے آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، 2050 تک شہری آبادی میں 60 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔
اسے بہتر بنانے کے لیے زمین کے بہتر استعمال کی منصوبہ بندی، میونسپل خدمات اور توانائی میں سرمایہ کاری اور آلودگی سے پاس نقل و حمل کی ضروریات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے مضبوط بلدیاتی حکومتیں اور پراپرٹی ٹیکسوں کے ذریعے ان حکومتوں کی مالیات میں اضافہ ضروری ہے۔
تیسرا شعبہ توانائی کا ہے جس میں کم کاربن خارج کرنے والی ٹرانسپورٹ اور قابل تجدید توانائی کی طرف رخ موڑنا شامل ہیں۔
چوتھا شعبہ انسانی وسائل ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پاکستان کو پانی، صفائی اور صحت میں بہتری لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی وجہ سے بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، اس کے علاوہ شرح پیدائش کم کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق پانچواں شعبہ مالیاتی پالیسیوں اور اداروں کو مالیاتی بہتری سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس کام کے لیے 2030 تک مجموعی جی ڈی پی کا 10 فیصد صرف کرنا ہو گا۔
عالمی بنک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2001 سے 2015 کے درمیان 4 کروڑ 80 لاکھ پاکستانی انتہائی غربت سے باہر نکالے گئے ہیں، اس دوران خط غربت سے نیچے رہنے والے پاکستانیوں کی شرح 28.2 فیصد سے کم ہو کر 3.6 فیصد رہ گئی ہے۔
اس کارنامے کے باعث عالمی بنک نے پاکستان کو جنوبی ایشیاء کا سب سے کامیاب ملک قرار دیا ہے۔
تاہم پاکستان کو کئی شعبوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے جن میں سرمایہ کاری اور محاصل شامل ہیں، 2021 میں سرمایہ کاری کا جی ڈی پی میں حصہ صرف 14 فیصد جبکہ محاصل کا 10 فیصد رہا ہے جو اس خطے میں سب سے کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح پیدائش 3.3 فیصد ہے جسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک بھر میں ہر سال 21 لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں شامل ہو رہے ہیں لیکن ان کے پاس مہارت کی کمی ہے اور انہیں صحت سے متعلقہ مسائل کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی تباہ کاریوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ملک کو بائیو ڈائیورسٹی اور ایکوسسٹم سروسز کی کمی کا سامنا ہے، اس کی وجوہات میں جنگلات کی کمی اور پانی کی گرتی سطح شامل ہیں۔
ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو 2030 تک 348 ارب ڈالرز کی بھاری رقم درکار ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق یہ رقم پاکستان کے موجودہ بجٹ کا 800 فیصد ہے، یہ اتنی بڑی رقم ہے جس سے کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن بچھانے کے ایم ایل ون جیسے 35 منصوبے تیار کیے جا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اتنی بڑی رقم کی فراہمی ایک ایسے ملک کے لیے ممکن نہیں جو اپنے سالانہ بجٹ کا دو تہائی حصہ دفاع اور قرض کی ادائیگی پر صرف کرتا ہے۔