پاکستان کی معاشی صورتحال پر عالمی بنک کی پریشان کن رپورٹ جاری

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

عالمی بنک نے پاکستان کی معاشی صورتحال کے متعلق رپورٹ جاری کر دی ہے جس کا خلاصہ نیچے بیان کیا گیا ہے۔

2022  کے دوران معیشت نہ صرف مضبوط تھی بلکہ وسیع البنیاد بھی تھی۔ زرعی پیداوار میں بہت ترقی دیکھی گئی جبکہ صنعت اور خدمات کے شعبے بھی مضبوط رہے۔ البتہ ٹیکسٹائل اور خوراک کے شعبے کسی حد تک متاثر رہے۔

عالمی سطح پر اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کے باعث جاری کھاتوں کا خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد رہا جو چار سال کی بلند ترین شرح تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ 2022 کے دوران قرضوں کی ادائیگی، سیاسی اور پالیسی کی غیریقینی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور پڑا اور ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں 23.1 فیصد  تک کمی ہو گئی۔

2022 کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہوئے صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات تک رہ گئے۔

روپے کی قدر میں کمی، اشیاء کی بڑھتی قیمتیں اور تیزی سے بڑھتی معیشت نے افراط زر میں اضافہ کیا جو 11 برس کی بلند ترین سطح، 12.2 فیصد تک پہنچ گیا۔ اس سے نمٹنے کے لیے مرکزی بنک نے مالیاتی پالیسی سخت کی اور ستمبر 2021 میں پالیسی ریٹس میں 800 بیسک پوائنٹس کا اضافہ کیا تاہم پالیسی ریٹس 15 فیصد ہونے کے ساتھ ساتھ شرح سود منفی میں رہی۔

جزوی طور پر توانائی میں سبسڈی کے باعث 2022 میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 7.9 فیصد تک پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ بنکوں کی پبلک سیکٹر کو دیے گئے قرضوں کی شرح 70 فیصد تک پہنچ گئی۔ بڑھتے معاشی خطرات کے باعث ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستانی بانڈز کو ڈاؤن گریڈ کیا جس سے ان کی ییلڈ تیزی سے بڑھ گئی۔

سیلاب کے منفی اثرات

سیلاب کے بعد ریلیف اور بحالی کی ضروریات کے باعث مالیاتی پالیسی میں سختی جاری رکھنا مشکل تر ہو گیا ہے، سیاسی دباؤ، بیرونی حالات میں کوئی غیرمتوقع خرابی اور مالیاتی اور بیرونی فائنانسنگ سے جڑے خطرات صورتحال کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔

سیلاب کی وجہ سے غربت میں کمی کی کوششیں بھی متاثر ہوں گی، کیونکہ بڑی تعداد میں لوگوں کی آمدنی مال مویشی ختم ہونے سے متاثر ہوئی ہے ، فصلیں، کاشتکاری کے آلات اور گھریلو سازوسامان ضائع ہوئے ہیں، ذخیرہ کی گئی خوراک کے ضیاع کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور سکولوں کے بند ہونے، بیماریوں اور خوراک کی کمی کے باعث افرادی قوت متاثر ہوئی ہے۔

ابتدائی تخمینوں کے مطابق دو دہائیوں کے بعد پہلی بار زرعی شعبے کے سکڑنے کا امکان ہے کیونکہ 10 لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہو گئے ہیں۔

ابتدائی تخمینوں کے مطابق غربت کی شرح میں 2.5 فیصد سے 4 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے جس کے باعث 58 سے 90 لاکھ لوگ خط غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔

افراط زر کی شرح کی بڑھتی شرح نے غریب طبقے کو شدید متاثر کیا ہے۔

زرعی، صنعتی، مینوفیکچرنگ کے شعبے کی صورتحال

زرعی شعبے میں 2021 کے دوران 3.5 فیصد جبکہ 2022 میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا جو 17 سال میں سب سے زیادہ شرح تھی۔ موسموں کی مہربانی سے گندم کی کاشت میں کمی کو چاول، کپاس، گنا اور مکئی کی زیادہ پیداوار نے پورا کیا۔

لائیوسٹاک جو کہ زرعی شعبے میں 60 فیصد ویلیو ایڈیشن کرتا ہے، میں بھی اضافہ ہوا۔

اسی طرح 2022 میں صنعتی شعبے نے 7 فیصد ترقی کی جو کہ 2021 میں ہونے والی 7.8 فیصد ترقی سے کچھ کم تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ مینوفیکچرنگ کے شعبے، بجلی، گیس اور واٹر سپلائی میں بھی ترقی دیکھنے کو ملی، لارج سکیل مینوفیکچرنگ، جس کا صنعتی شعبے کی پیداوار میں 50 فیصد کے قریب حصہ بنتا ہے، میں 2021 کے دوران 11.2 فیصد اور 2022 میں 11.7 فیصد اضافہ ہوا۔

معاشی ترقی اور صارفین کی طلب کی وجہ سے خدمات کے شعبے میں 2021 کےدوران 6 فیصد اور 2022 میں 6.2 فیصد ترقی دیکھی گئی جو گزشتہ 16 سال کی سب سے بلند شرح تھی۔

تاہم 2022 کے آخر میں میکرواکنامک صورتحال میں ابتری کی وجہ سے کاروباری طبقے کا اعتماد کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔

افراط زر کی صورتحال

2021 کے دوران ایوریج کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کا افراط زر 8.9 فیصد رہا تھا جو 2022 کے مالی سال میں 12.2 فیصد تک پہنچ گیا، اس کی وجوہات میں حکومت کی جانب سے طے کی گئی توانائی کی قیمت، عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور کمزور شرح مبادلہ شامل تھیں۔

اسی طرح جنوبی ایشیاء میں ایوریج ہیڈلائن افراط زر سری لنکا کے بعد پاکستان میں بلندترین رہا۔

2021 کے دوران گھریلو توانائی میں افراط زر شہری علاقوں میں 4.6 فیصد اور دیہی علاقوں میں 6.8 فیصد تھا جو 2022 کے دوران بڑھ کر بالترتیب 25.5 فیصد اور 24.7 فیصد تک پہنچ گیا۔

گزشتہ مالی سال کے دوران شہری علاقوں میں خوراک کی افراط زر کی شرح 13.4 فیصد اور دیہی علاقوں میں 13 فیصد تک چلی گئی۔

اگست 2022 میں سی پی آئی افراط زر نے 27.3 فیصد کی بلند ترین سطح کو چھو لیا، توانائی کی قیمتوں میں افراط زر شہری علاقوں میں 80.7 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 67.8 فیصد رہا۔

2021 میں غربت کی شرح 39.1 فیصد تھی جو جی ڈی پی کی شرح میں اضافے سے 2022 کےدوران کم ہو کر 36.4 فیصد ہو گئی۔

بیرونی شعبہ

جاری کھاتوں کا خسارہ 2021 کے دوران محض 2.8 ارب ڈالرز تھا جو جی ڈی پی کا 0.8 فیصد بنتا ہے تاہم 2022 کے دوران یہ چھلانگ لگا کر 17.3 ارب ڈالرز (جی ڈی پی کا 4.6 فیصد) تک پہنچ گیا۔

اشیاء کی درآمدات و برآمدات، دونوں ہی 2022 کے دوران ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں۔ اگرچہ گزشتہ مالی سال کے دوران برآمدات میں 26.6 فیصد اضافہ ہوا لیکن برآمدات بھی 32.7 فیصد بڑھ گئیں جس کے باعث 39.6 ارب ڈالرز کا ریکارڈ خسارہ سامنے آیا، ترسیلات زر نے اس فرق کو 80 فیصد کم کرنے میں مدد دی۔

اسی برس کے دوران اشیاء کی برآمدات 32.5 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں، ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 27.8 فیصد اضافہ ہوا۔

2022 کے دوران اشیاء کی درآمدات بھی 72 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں جس میں پٹرولیم سے متعلقہ درآمدات 18.7 ارب ڈالرز رہیں۔

گزشتہ برس بیرون ملک سے بھیجی گئی ترسیلات زر بھی 31.2 ارب ڈالرز کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں۔

مالیاتی خسارہ

2021 کے دوران مالیاتی خسارہ 3403 ارب روپے (جی ڈی پی کا 6.1 فیصد) رہا تھا جو 2022 کے مالی سال کے دوران بڑھ کر 5260 ارب روپے (جی ڈی پی کا 7.9 فیصد) تک پہنچ گیا۔

اخراجات میں اضافے کی بڑی وجہ توانائی میں دی گئی سبسڈیز اور قرض کی ادائیگی رہیں جو ملکی محاصلات سے زیادہ بڑھ گئیں۔

2021 کے دوران کل محاصلات 6903 ارب روپے (جی ڈی پی کا 12.4 فیصد) رہے جو 2022 میں بڑھ کر 8035 ارب روپے (جی ڈی پی کا 12 فیصد) ہو گئے۔

2021 کے 10307 ارب روپے (جی ڈی پی کا 18.5 فیصد) کے کل اخراجات کے مقابلے میں 2022 کے مالی سال کے دوران یہ اخراجات 13295 ارب روپے (جی ڈی پی کا 19.9 فیصد) تک پہنچ گئے۔

پاکستان کا کل قرضہ

2022 کے مالی سال کے اختتام پر پاکستان کا کل قرضہ 52214 ارب روپے ہو گیا جو جی ڈی پی کا 78 فیصد بنتا ہے، 2021 کے اختتام پر یہ قرض 42199 ارب روپے (جی ڈی پی کا 75.6 فیصد) تھا۔

گزشتہ مالی سال کے اختتام پر بیرونی قرضہ مجموعی ملکی قرض کا 37.6 فیصد تھا جبکہ مختصرالمعیاد قرض 13.6 فیصد رہا۔

درمیانی مدت کے دوران کیا صورتحال رہے گی؟

سیلاب کے باعث زرعی پیداوار میں بڑی کمی متوقع ہے اور کپاس، کھجور، گندم، چاول اور مویشیوں میں بڑی کمی کے خدشات ہیں۔ اس وجہ سے 2023 کے مالی سال میں حقیقی جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 2 فیصد جبکہ 2024 میں 3.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

مقامی توانائی کی قیمتوں میں اضافے، سیلاب کی تباہ کاری اور کمزور روپے کی وجہ سے 2023 کے مالی سال کے دوران افراط زر کی شرح 23 فیصد جبکہ 2024 میں 9.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اسی طرح 2023 کے دوران بڑھتی ترسیلات زر کی وجہ سے جاری کھاتوں کا خسارہ جی ڈی پی کے 4.3 فیصد رہنے کی توقع ہے جس کے 2024 میں کم ہونے کا امکان ہے۔

رواں مالی سال کے دوران مالیاتی خسارہ ایک فیصد کمی کے ساتھ 6.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

سیلاب کے باعث کپاس کی پیداوار میں کمی سے مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری متاثر ہو گی کیونکہ مقامی کپاس اس صنعت کی آدھی ضروریات پوری کرتی تھی۔

ٹیکسٹائل کے شعبے کا کل صنعتی پیداوار میں ایک چوتھائی حصہ ہے جبکہ برآمدات میں اس کا حصہ تقریباً آدھا بنتا ہے۔

عالمی بنک نے 2023 کے دوران پرائمری خسارے کی جی ڈی پی کے 3.1 فیصد اور 2023 میں 3 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے، اسی طرح مالیاتی خسارے کی شرح 2023 کے دوران جی ڈی پی کے 6.9 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔

جاری کھاتوں کا خسارہ 2022 کے دوران کم ہو کر جی ڈی پی کے 4.3 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔

خطرات اور ترجیحات

سیلاب کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار معیشت مزید منفی اثرات کا شکار رہے گی۔

چاول کی برآمدات 2022 کے دوران 2.5 ارب ڈالرز کے تاریخی ریکارڈ پر پہنچ گئی تھیں، لیکن سیلاب کی وجہ سے چاول کی پیداوار میں 20 فیصد کمی آئی ہے جس کے باعث اس کی برآمدات کم ہونے کا خدشہ ہے۔

سیلاب سے کپاس کی فصل کو پہنچنے والے نقصانات کی وجہ سے اس کی پیداوار میں 11 فیصد سے 36 فیصد کمی کا امکان ہے، اس صورتحال میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو 50 سے 58 لاکھ کے درمیان گانٹھیں درآمد کرنی پڑیں گی۔

- Advertisement -
مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین

اسٹیٹ بینک کا شرح سود 20 فیصد کرنے کا اعلان

اسٹیٹ بینک پاکستان نے شرح سود میں 300 بیسس...

پاکستان کے لیے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کا قرضہ اگلے سال تک موخر

عالمی بینک نے پاکستان کو دیے جانے والے ایک...

اسٹیٹ بینک کی معاشی شرح نمو مزید کم رہنے کی پیشگوئی

اسٹیٹ بینک نے ملک میں معاشی ترقی کی شرح...