عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی شرح نمو کی پیشگوئی 3.5 فیصد سے کم کر کے صرف 0.5 فیصد کر دی ہے۔
عالمی بینک اور ایشیائی ڈیولپمنٹ بینک پہلے ہی پاکستان کی معاشی شرح نمو تقریباً اسی سطح پر رہنے کا امکان ظاہر کر چکے ہیں۔
آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال، 2023-24 میں شرح نمو کے متعلق بھی اپنی پیشگوئی 4.2 فیصد سے کم کر کے 3.5 فیصد کر دی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف نے اوسط افراط زر کے 27 فیصد رہنے اور بیروزگاری کی شرح 7 فیصد تک بڑھنے کی پیشگوئی بھی کر دی ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ جاری کر دی ہے جس کے مطابق پاکستان کا جاری کھاتوں کا خسارہ جی ڈی پی کے 2.3 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف نے آٹھویں نظرثانی رپورٹ میں اوسط افراط زر کی شرح 19.9 فیصد تک رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا لیکن اب اسے بڑھا کر 27 فیصد تک کر دیا ہے۔
سالانہ افراط زر 35 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو 50 سال کی بلندترین سطح ہے، اوسط افراط زر کے 27 فیصد تک پہنچنے کا مطلب ہے کہ سالانہ شرح میں اضافہ جاری رہے گا۔
آئی ایم ایف نے 2023-24 کے مالی سال کے متعلق اوسط افراط زر کی شرح 21.9 فیصد تک رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے جو گزشتہ پیشگوئی کے دگنے سے بھی زیادہ ہے۔
صرف 8 ماہ قبل آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے لیے 10 فیصد اوسط افراط زر کی پیشگوئی کی تھی۔
اس پیشگوئی کے مطابق جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی، اس کے لیے اگلا برس بہت مشکل ثابت ہو گا، وہ آئی ایم ایف کے پروں تلے رہنے کے لیے شرح سود میں کوئی کمی نہیں کر سکے گی۔
یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک پہلے ہی شرح سود کو 21 فیصد تک بڑھا چکا ہے، اگر افراط زر کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ شرح اب بھی منفی میں ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق 2022 کے وسط سے گلوبل ہیڈلائن افراط زر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے، اس کی وجہ امریکہ، یورپ اور لاطینی امریکہ میں تیل اور توانائی کی قیمتوں میں ہونے والی کمی ہے۔
ماہرین معیشت کے مطابق جس شرح سے ہر سال نوجوان پاکستان کی مارکیٹ میں شامل ہو رہے ہیں، اسے جذب کرنے کے لیے اگلے 20 برسوں تک 7 سے 8 فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے۔
شرح نمو میں متوقع کمی کے باعث آئی ایم ایف نے بیروزگاری کے متعلق اپنا سابقہ تخمینہ 6.2 فیصد سے بڑھا کر 7 فیصد کر دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ معاشی بدحالی کی وجہ سے مزید 39 لاکھ پاکستانی خط غربت کے نیچے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں درآمدات پر مختلف قسم کی پابندیوں کی وجہ سے رواں مالی سال کے 8 ماہ کے دوران جاری کھاتوں کا خسارہ 3.9 ارب ڈالر رہا ہے جو اگلے چار ماہ میں بڑھ کر 8 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
بڑھتے جاری کھاتوں کے خسارے کا مطلب ہے کہ حکومت کو اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینا پڑے گا۔
حکومت اب تک 6 ارب ڈالر کے نئے قرضے حاصل نہیں کر سکی اور اسی وجہ سے آئی ایم ایف سے ملنے والی قسط کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے اب تک سعودی عرب سے دو ارب ڈالر کی یقین دہانی حاصل کر لی ہے جبکہ ایک ارب ڈالر کی یقین دہانی متحدہ عرب امارات سے متوقع ہے، لیکن ابھی بھی اسے آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے مزید تین ارب ڈالر کے قرض کی ضرورت ہے۔