زرمبادلہ کے گرتے ذخائر، مقامی کرنسی کی کمزوری اور افراط زر کی کئی دہائیوں بعد بلند ترین سطح، ان سب عوامل کے باعث پاکستانی معیشت کی صحت کے متعلق ایک مرتبہ پھر خدشات ابھر رہے ہیں۔
یہ بات معروف خبررساں ایجنسی رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تیل، گیس اور دیگر اشیاء کی درآمدات پر انحصار بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی عالمی سطح پر قیمتوں کے اضافے سے شدید متاثر ہوا ہے۔
حال ہی میں سیلاب کے باعث 15 سو افراد اپنی جان سے گئے اور ملک کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی مالیات پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے۔
بنیادی مسئلہ کیا ہے؟
پاکستان کے تمام معاشی مسائل اس مخمصے کے گرد گھومتے ہیں کہ اسے توانائی اور خوراک کی درآمد پر بھاری رقوم خرچ کرنی پڑتی ہیں، ساتھ ساتھ اسے بیرون ملک قرضے کی ادائیگی بھی کرنی ہوتی ہے۔
مرکزی بنک کے مطابق سیلاب سے قبل پاکستان 2022-23 کے مالی سال کے دوران بیرونی ادائیگیوں کے لیے 33.5 ارب ڈالرز کی بھاری رقم درکار تھی۔
حکومت کا خیال تھا کہ وہ جاری کھاتوں کا خسارہ آدھا کر کے اور دوست ممالک سے قرضوں کی واپسی کا نیا لائحہ عمل تشکیل دے کر اس مسئلے سے نمٹ لے گی۔
تاہم سیلاب نے تمام اندازے بدل دیے ہیں، لاکھوں ایکڑ قابل کاشت زمین کے زیرآب آ جانے سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کا امکان ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے پروگرام طے ہونے کے باوجود مرکزی بنک میں زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالرز جبکہ کمرشل بنکوں میں 5.7 ارب ڈالرز ہیں جو بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
رواں برس روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے جس کے باعث درآمدات اورقرض کی ادائیگی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے، اس سے افراط زر میں مزید اضافہ ہو گا جو پہلے ہی 27.3 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے باعث دیوالیہ ہونے کا فوری خطرہ ٹل گیا ہے لیکن خدشات ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب کے باعث پاکستان کے لیے قرض کی ادائیگی معطل کرنے کی درخواست کی گئی جس کے بعد عالمی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کی قیمت گر گئی۔
اسحاق ڈار: مداخلت کی شہرت رکھنے والا وزیرخزانہ
رائٹرز کے مطابق مفتاح اسماعیل اصلاحات لانے کے حامی تھے جنہیں ہٹا کر اسحاق ڈار کو لایا گیا ہے جو فری مارکیٹ میں مداخلت کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔
حلف اٹھانے کے فوراً بعد اسحاق ڈار نے شرح سود میں کمی لانے، افراط زر کو گھٹانے اور روپے کی قدر مضبوط کرنے کا ارادہ ظاہر کر دیا۔
بنیادی پالیسی شرح سود اس وقت 15 فیصد ہے جو 27 فیصد افراط زر سے بہت کم ہے۔ اسحاق ڈار کے مقبول بیانیے والے تبصروں نے مارکیٹ میں ایک بار پھر کھلبلی مچا دی ہے۔
پاکستان کے پاس کیا آپشن موجود ہیں؟
پاکستان کو اگرچہ فوری طور پر درآمدات میں کمی لانے کی ضرورت ہے لیکن سیلاب کے باعث ضروریات بڑھ گئی ہیں۔
اس وقت سرمایہ کار پاکستان کے عالمی بانڈز پر 26 فیصد پریمیم کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان عالمی کیپٹل مارکیٹ سے باہر ہو گیا ہے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف کی اگلی قسط وقت سے پہلے ملنے کے اشارے مل رہے ہیں لیکن یہ پروگرام 2023 کے وسط میں ختم ہو جائے گا، حکومت کا کہنا ہے کہ اسے دیگر اداروں سے قرض ملنے کی توقع ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے 5 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے جس سے مالیاتی صورتحال میں بہتری اور اعتماد میں اضافے کا امکان ہے۔
قطر اور سعودی عرب سے توانائی کی ادائیگی میں سہولت سے بھی جاری کھاتوں پر دباؤ کم ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پیرس کلب سمیت دوطرفہ قرض دینے والے اداروں سے بات چیت کر رہا ہے تاکہ ادائیگی کے طریق کار کا نیا خاکہ تیار کیا جا سکے۔
تاہم چین اس معاملے میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان نے چین کا تقریباً 30 ارب ڈالرز کا قرضہ دینا ہے جس میں ریاستی بنکوں کا قرض بھی شامل ہے۔
کیا پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا؟
پاکستان بیرونی قرض کی ادائیگیوں کے معاملے میں کبھی دیوالیہ نہیں ہوا، مرکزی بنک اور سابقہ وزیرخزانہ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان کے فوری طور پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔
حکومت نے دسمبر میں بانڈز کے میچور ہونے پر ایک ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے، اس کے علاوہ رواں مالی سال کے دوران سود کی مد میں 600 ملین ڈالرز بھی ادا کرنے ہیں۔
جون سے ہی تمام عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ کم کر دی ہے، تمام کے مطابق ملکی صورتحال قیاس آرائیوں پر مبنی اور انتہائی خطرناک ہے جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان قلیل المدتی ادائیگیاں کر سکے گا۔
سری لنکا کی مثال سب کے سامنے ہے اور پاکستان کا اس سے تقابل کیا جا رہا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی صورتحال سری لنکا سے مختلف ہے۔
پاکستان اس حالت میں کیونکر پہنچا؟
پاکستان کے بحران کے پیچھے سیاسی بحران اور عالمی سطح پر اشیاء کی قلت جیسے عوامل کارفرما ہیں۔
پاکستان کی درآمدات کی ادائیگی کا تیسرا حصہ توانائی کی مد میں جاتا ہے، ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پیٹرولیم کی درآمدات اس سے پچھلے مالی سال کے مقابلے میں دوگنا ہو کر 23.3 ارب ڈالرز تک جا پہنچی تھیں۔
بجلی کی پیداوار زیادہ تر ایل این جی کے ذریعے ہوتی ہے جس کی قیمتیں بلند سطح پر پہنچ چکی ہیں اور سردیوں میں اس کی رسد کم ہو جائے گی۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث گزشتہ مالی سال کے دوران جاری کھاتوں کا خسارہ 17 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا جو اس کے جی ڈی پی کا 5 فیصد بنتا ہے، یہ 2020-21 کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ تھا۔
گزشتہ مالی سال کے دوران درآمدات 42 فیصد اضافے کے ساتھ 80 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں جبکہ برآمدات 25 فیصد اضافے کے ساتھ 32 ارب ڈالرز تک ہی جا سکیں۔
پریشان کن تاریخ
22 کروڑ آبادی پر مشتمل اس ملک کی معیشت کا حجم 350 ارب ڈالرز ہے، ملک کو جاری کھاتوں کے خسارے کا مسئلہ مستقل طور پر درپیش رہا ہے جبکہ 1958 کے بعد پاکستان آئی ایم ایف سے 20 بار بیل آؤٹ پیکج لے چکا ہے۔
پاکستان کی صنعتی پیداوار کی صلاحیت محدود ہے، معاشی توسیع کے عرصے میں یہ ملک درآمدات کا متبادل تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے بیرونی حالات میں خرابی اسے متاثر کرتی رہی ہے۔