پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی اور کیس کی سماعت کل تک ملتوی ہو گئی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ازخود نوٹس سے متعلق میرے تحفظات ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا۔ میری نظرمیں دورکنی بینچ کی جانب سے چیف جسٹس کونوٹ لکھنا غیرمناسب تھا، جومعاملہ بینچ کےروبروتھا ہی نہیں، اس پرچیف جسٹس کونوٹ بھیج دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ آٸین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کرے گی، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، 20فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک اہم ایشو ہے ، یہ شفافیت اور عدالتوں پر اعتماد کی بات ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سماعت کے دوران کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔
دوران سماعت بییرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے اسے بھی ساتھ سنا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے تین معاملات دیکھنے ہیں جس میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کے اختیار کا سوال شامل ہے۔
اٹارنی جنرل نے کیس کی تیاری کے لیے وقت دینے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیل سماعت پیر کو ہو گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے، وقت گزرتا جار ہا ہے، اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر میرے تحفظات ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا، پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔
دوران سماعت جسٹس جمال جان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چھ آڈیو سامنے آیی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔
اس موقع پر جسٹس اطہر منااللہ نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں آئینی شق پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب اسپیکرز نے درخواست دی اس وقت صدر اور الیکشن کمیشن میں خط وکتابت شروع ہوئی، درخواستوں میں گورنرز کی جانب سےالیکشن اعلان نہ کرنے کو چیلنج کیا گیا۔
اس دوران سپریم کورٹ نے صدر پاکستان حکومت پاکستان الیکشن کمشن کو نوٹس جاری کردیا، سپریم کورٹ کی جانب سے گورنر پنجاب، گورنر خیبر پختونخوا اور چیف سیکریٹری کو بھی نوٹس جاری کردییے۔
عدالت نے کہا کہ صدر مملکت، گورنرز کے پرنسپل سیکریٹری ریکارڈ پیش کریں، عدالت نے پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار سمیت چاروں صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیے، عدالت نے کہا کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کو نوٹس جاری عدالت کی معاونت کریں۔