وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت حکمران جماعتوں کے اجلاس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا گیا۔
حکمران جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ انہیں تین رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔
اجلاس میں واضح کیا کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پہلے ہی تین کے مقابلے چار ججوں کی اکثریت سے انتخابی درخواستیں خارج کرچکا ہے، چیف جسٹس اکثریتی پر اقلیتی فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔
اجلاس نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی آرٹیکل 209 کے تحت دائر ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔
اجلاس میں شریک اتحادی جماعتوں کا کہنا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت زیر سماعت مقدمات پر کارروائی سے روکنے کا کہا ہے، اس فیصلے کا احترام کرنا سب پر لازم ہے۔
اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ جسٹس اعجازالاحسن کا دوبارہ تین رکنی بینچ میں شامل ہونا غیر منصفانہ ہے، یہ عمل سپریم کورٹ کے طریقہ کار اور نظائر کی بھی صریح خلا ف ورزی ہے۔
اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں سے مل بیٹھنے کا کہا جا رہا ہے لیکن سپریم کورٹ خود تقسیم ہے۔
شرکا نے مطالبہ کیا کہ ان حالات میں چیف جسٹس پاکستان اور تین رکنی بینچ کے دیگر جج صاحبان مقدمے سے دستبردار ہوجائیں۔
اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ اجلاس نے واضح کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طور پر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہٰذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہوسکتے، اس حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں، یہ سب کچھ ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔
اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ ’وَن مین شو‘ کا تاثر ختم ہو۔
اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید اور حمایت کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ اس قانون سازی سے عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ ہوگا۔
اس ضمن میں مزید کہا گیا کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے، پارلیمنٹ بالا دست ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔
حکومت میں شامل جماعتوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ صدر قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویے کے تاثر کو چیف جسٹس ختم کریں۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق شہبازشریف لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کی صدارت کریں گے، وہ سیاسی صورتحال کا جائزہ پیش کریں گے جبکہ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ قانونی معاملات پر شرکاء کو بریف کریں گے۔
اس سے قبل شہباز شریف نے حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس طلب کیا تھا جس میں سیاسی، معاشی اور عدالتی صورتحال پر غور کیا جانا تھا۔
اجلاس کا اہم ایجنڈا سپریم کورٹ کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کے التوا کا ازخود نوٹس تھا، الیکشن کمیشن نے پانچ ماہ سے زائد عرصہ کے لیے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کر دیے تھے جس پر عدالت میں سماعت جاری ہے۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف نے لندن سے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں عدالتی کارروائی پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا، انہوں نے ازخود نوٹس پر بینچز کی تشکیل پر سوالات اٹھائے تھے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت 1997 جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جب اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کے ساتھی ججز نے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا تھا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کر دی گئی تھیں، آئین کے تحت ان اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کے اندر کرنا لازم ہے، اس حساب سے 14 اپریل اور 17 اپریل تک دونوں صوبوں میں الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے۔
تاہم دونوں صوبوں کے گورنرز نے انتخابات کی تاریخ دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
عدالتی حکم پر پنجاب میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن اور صدر مملکت عارف علوی نے 60 اپریل کی تاریخ طے کی تھی، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے اسے بڑھا کر 8 اکتوبر کر دی تھی۔