یہ پاکستان کی معاشی تاریخ کا بدترین دور ہے، ڈاکٹر حفیظ پاشا

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

آج پاکستان اپنی 75 سالہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گذر رہا ہے جو کہ ہمارے طویل المدتی سے زیادہ حالیہ پیش رفت کے مرہون منت ہے۔

قیام کے ابتدائی 67 سالوں میں بیرونی قرضہ 65 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ لیکن گزشتہ 7 سال ( 2014ء تا 2021ء) کے درمیان یہ بڑھ کر 130 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ جو کہ جی ڈی پی کا تقریباً 40 فیصد ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں آنے والے حالیہ بدترین سیلاب نے بھی ملکی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ جو کہ گزشتہ سال روس یوکرین جنگ کی شروعات کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھی۔

ان خیالات کا اظہار سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے بزنس ریکارڈر میں لکھے گئے مضمون میں کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سال 2021-22ء بھی مالیاتی اور زری پالیسیوں کی توسیعی جدوجہد کا شاہد رہا، جس کے ساتھ بلند بین الاقوامی قیمتیں دوسرے بڑےکرنٹ اکاونٹ خسارے کا موجب بنی اور وہ 17 ارب 40 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔

اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر جو کہ جون 2021ء میں 17 ارب 30 کروڑ ڈالر تھے، جون 2022ء میں کم ہوکر 9 ارب 80 کروڑ ڈالر رہ گئے۔ اور درحقیقت یہی اس بحران کا آغاز تھا۔ اب یہ ذخائر 4 ارب 60 کروڑ ڈالر کی کم ترین سطح پر ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف) کی سپورٹ کے باوجود کریڈٹ ریٹنگ مین بدترین تنزلی کا سامنا کرنا پڑا۔ چھوٹے ذخائر اور کم ریٹنگ 2022-23ء کے پہلے بڑے منفی نتیجے کی شکل میں سامنے آئی۔ طویل عرصے بعد پاکستان کو قرضوں کی فراہمی بیرونی قرضوں کی ادائیگی سے کم ہے۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ جولائی سے فروری 2022ء-23 کے دوران ادائیگیوں کا توازن ظاہر کرتا ہے کہ سرکاری کھاتے میں آنے والی رقوم کی شرح دوبارہ ادائیگیوں (ری پیمنٹس) کی نسبت 1 ارب 80 کروڑ ڈالر کم تھی۔

اگرچہ مرکزی بینک کے مصنوعی اقدامات کی وجہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کافی حد تک کم تھا، لیکن منفی مالیاتی کھاتے نے مجموعی طور پر ادائیگیوں کے خسارے میں اضافہ کیا اور مالی سال 2022-23ء کے ابتدائی 8 ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 5 ارب 80 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئے۔

 دوسری جانب بیرونی سرمایہ کاری کے معاملے میں تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ وزارت برائے اقتصادی امور کے مطابق 2022-23ء میں مجموعی ضرورت بشمول تخمینہ شدہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور قرض کی ادائیگیوں  22 ارب 80 کروڑ ڈالر کی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کی آمد اس سے کہیں کم ہے۔

ڈاکڑ پاشا کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ میں حقیقی ان فلو7 ارب 40 کروڑ ڈالر رہا جو کہ اہدافی رقم کے محض 32 فیصد کے برابر ہے۔ خاص طور پر پاکستانی بونڈز کی خریداری کی مد میں نجی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی کمرشل بینکوں سے ملنے والے قرضے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

رواں مالی سال میں ان ذرائع سے 9 ارب 50 ڈالر کا ہدف رکھا گیا تھا، لیکن فروری 2023ء کے آخر تک صرف 70 کروڑ ڈالر ہی موصول ہوئے ہیں۔ اور اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ جون 2023ء تک فنڈز کے ان فلو کی مقدار آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کو حتمی شکل دینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ اگر یہ غیر یقینی صورت حال جاری رہی تو پاکستان تشویش ناک حد تک دیوالیہ ہونے کے قریب رہے گا۔

معاشی بدحالی کے کئی دوسرے اشاریے بھی معیشت میں ابتری کی عکاسی کرتے ہیں۔ مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کی پالیسی میں تبدیلی کے بعد، روپے کی قدر 56فیصد تک کم ہوچکی ہے۔ یہ مہنگائی کی شرح میں تاریخی اضافے کی ایک بڑی وجہ بھی ہے کیوں کہ حالیہ سیلاب سے فصلوں اور مویشیوں کو پہنچنے والے نقصان اور درآمدی ایل سیز پر اسٹیٹ بینک کے کنٹرول کے بعد درآمدات کے محدود حجم کی وجہ سے رسد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

مالیاتی شعبے میں پیش رفت کے متعدد دیگر اشاریے بھی سنگین معاشی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک اور بینکوں کے غیر ملکی اثاثوں میں چار گنا کمی اور نجی شعبے کے لیے قرضوں میں 73 فیصد تک کمی آئی ہے۔

بینکوں سے حکومتی قرضے پچھلے سال کے مقابلے میں 264 فیصد زیادہ ہیں۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز نے گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں صرف 5 ارب روپے جبکہ اس برس 180 ارب روپے قرض لیا جا چکا ہے۔

حکومتی آمدن کے حوالے سے بھی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ منی بجٹ 170 ارب روپے ہونے کے باجود ایف بی آر کے ریونیو کی شرح نمو 15 سے 17 فیصد کے درمیان رہی۔

ڈاکٹر پاشا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تو پھر جون 2023ء کے آخر تک عوامی قرضہ جات اور واجبات کی سطح جی ڈی پی کے تقریباً 80 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔  اسی طرح موٹر اسپرٹ اور ایچ ایس ڈی تیل کی فروخت میں بالترتیب 15 فیصد اور 24 فیصد کمی کی وجہ سے پیٹرولیم لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 200 ارب روپے سے زائد کی کمی کا امکان ہے۔

سیلاب کی وجہ سے کپاس کی فصل پہلے ہی تقریباً 35 فیصد کم ہوئی تھی، اور اب گندم کی پیداوار میں بھی کمی کا امکان ہے، جس کے بعد 2022-23ء میں جی ڈی پی میں ایک سے 2 فیصد تک کمی متوقع ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج معاشی بدحالی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اس میں بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اور سیاسی انتشار نے ان مسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

ہم اس سال بے روزگاروں کی تعداد میں تقریباً 20 لاکھ اور غریبوں کی تعداد میں ایک کروڑ 80 لاکھ کا اضافہ دیکھیں گے اور یہ درحقیقت پاکستان کی معاشی تاریخ کا بدترین دور ہے۔

- Advertisement -
مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین

حکومت نے مہنگائی میں مزید اضافے کا عندیہ دے دیا

ملک میں جاری معاشی بحران سے متاثر ہونے والے...

آئی ایم ایف نے معاشی مشکلات کے شکار لبنان کو کیا وارننگ دی ہے؟

بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے وفد نے اربوں ڈالر...