امریکی ڈالر کی مضبوطی کی وجہ سے کئی ممالک کی مقامی کرنسیوں کی قدر کم ہوتی جا رہی ہے جسے برقرار رکھنے کی کوشش میں یہ ممالک قیمتی زرمبادلہ صرف کر رہے ہیں۔
معروف جریدے فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان، مصر اور لبنان کی معیشت مقامی کرنسی کی قدر کم کرنے کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کے چیف اکنامسٹ رابن بروکس کا کہنا ہے کہ یوکرین، نائجیریا اور ارجنٹائن کی مقامی کرنسی شدید دباؤ کا شکار ہیں، یوکرین کی جنگ اگر طوالت اختیار کرتی ہے تو بڑھتے افراط زر کے باعث قرضوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں ڈالر مضبوط ہو گا۔
تین ممالک نے آئی ایم ایف سے ایمرجنسی رقوم حاصل کرنے کے لیے اپنی کرنسی کی قدر گرائی ہے، کم آمدنی والے 60 فیصد ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق مصر نے 4 جنوری کو اپنی کرنسی کی قدر میں 23 فیصد کمی کی ہے، گزشتہ برس مارچ کے بعد یہ تیسری بار کی گئی کمی ہے جس کی وجہ سے مصری پاؤنڈ کی قدر آدھی رہ گئی ہے۔
اسی طرح 26 جنوری کو پاکستان نے روپے کی قدر میں کمی کی تو ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر 20 فیصد کم ہو گئی ہے۔
یہی حال لبنان کا ہوا ہے جہاں یکم فروری کو مرکزی بینک نے مقامی کرنسی کی قدر میں 90 فیصد کمی کر دی ہے۔
مقامی کرنسی کو مصنوعی طور پر مضبوط رکھنے کے باعث ان ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے گئے اور برآمدات مہنگی ہو گئیں جس کی وجہ سے اسے مارکیٹ کی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑا۔
تاہم کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث درآمدات مہنگی ہو گئیں جس کی وجہ سے افراط زر کے ساتھ ساتھ بیرونی قرضوں میں بھی اضافہ ہوا۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ترکی نے ابھی تک مقامی لیرا کی قدر کو مصنوعی طور پر قابو میں کیا ہوا ہے تاہم زلزلے کی وجہ سے پہلے سے موجود افراط زر میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
کئی ممالک مقامی کرنسی کو مضبوط رکھنے کی کوشش کرتے کرتے اب اس پالیسی کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
گھانا کا مرکزی بینک کئی برس تک مقامی کرنسی کو مصنوعی طور پر مضبوط رکھنے کی کوشش میں زرمبادلہ کے ذخائر خالی کر بیٹھا ہے۔
دسمبر میں گھانا نے اعلان کیا کہ وہ اس پالیسی کو مزید جاری نہیں رکھے گا جس کے بعد مقامی کرنسی کی قدر آدھی رہ گئی ہے۔
نائجیریا نے کئی برس سے کئی ایکسچینج ریٹ رکھے ہوئے تھے تاہم فروری میں ہونے والے انتخابات کے بعد یہ پالیسی بھی تبدیل ہونے کا امکان ہے۔