ملک میں جاری معاشی بحران کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ مسلسل دوسرے روز بھی گراوٹ کا شکار رہی۔
کاروباری ہفتے کے دوسرے روز کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 523.48 پوائنٹس کمی کے ساتھ 39279.43 پر بند ہوا، ٹریڈنگ کے دوران ایک مرحلے پر انڈیکس 775.4 پوائنٹس تک گر گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق سیاسی غیر یقینی، عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے نویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر، زرمبادلہ کے گرتے ذخائر اور شرح مبادلہ میں عدم استحکام کے باعث اسٹاک مارکیٹ میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔
انٹرمارکیٹ سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ایکوئٹی رضا جعفری کے مطابق اسٹاک مارکیٹ میں مندے کی وجوہات میں ادائیگیوں میں توازن کے حوالے سے ٹھوس پیشرفت کا نہ ہونا اور آئی ایم ایف اور چین و سعودی عرب سے متوقع رقم کا نہ آنا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت بار بار یقین دہانی کرا رہی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کیا جائے گا لیکن سرمایہ کار الفاظ کو عمل کی صورت میں ڈھلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
عارف حبیب کارپوریشن کے احسن محنتی کے مطابق پاکستانی کرنسی میں عدم استحکام اور صنعتوں پر زرمبادلہ کے بحران کے اثرات کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ گری ہے۔
مالیاتی اور ڈیٹا اینالیٹکس ویب پورٹل میٹس گلوبل کے مطابق پاکستانی روپیہ رواں مالی سال کے آغاز سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں 19.06 روپے (8.52 فیصد) گر چکا ہے۔
معیشت کے بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اوپن مارکیٹ سے ڈالر غائب ہو چکا ہے جبکہ انٹربینک میں بحران کے باعث بیرونی ادائیگیاں رک چکی ہیں۔
ملک فضائی کمپنیوں کو ادائیگی کرنے سے قاصر ہے جبکہ ڈالرز کی کمیابی کے باعث درآمد شدہ سامان بندرگاہوں پر پڑا ہوا ہے۔ کمپنیوں کے لیے ایل سی کھولنا ایک چیلنج بن چکا ہے اور کئی کمپنیوں نے عارضی طور پر کام روک دیا ہے۔
احسن محنتی کا کہنا ہے کہ سیاسی غیریقینی، دسمبر میں بڑھتا افراط زر اور آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کے التوا پر تشویش اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ کا باعث بنے ہیں۔
فرسٹ ایکوئٹیز لمیٹڈ کے ڈائرکٹر عامر شہزاد نے بھی مارکیٹ میں مندی کی وجوہات سیاسی غیریقینی اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں تاخیر بتائی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صرف آئل اینڈ گیس کا شعبہ ہی مستحکم رہا ہے جس کی وجہ حکومت کا گردشی قرضے کے حوالے سے کیے گئے اقدامات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت یہ کام بھی نہ کرتی تو آج اسٹاک مارکیٹ مزید گراوٹ کا شکار ہوتی۔