بزنس ریکارڈر کے ہیڈ آف ریسرچ علی خضر نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) کے ساتھ تیکنیکی معاملات پر ہونے والے مذاکرات کو ختم ہوئے چالیس دن سے زائد ہوچکے ہیں، لیکن التواء کے شکار اسٹاف لیول مذاکرات کے شروع ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ فی الحال آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اور بظاہر یہی دکھ رہا ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں کا ملبہ آئی ایم ایف پر ڈال کر اسے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کرتے ہوئے خود ملک کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہی ہے۔ حکومت اس معاملے میں بہت زیادہ پُر عزم نظر نہیں آرہی اور یہ اس کی حالیہ سبسڈی کے اعلان سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
حکومت اپنی کوتاہیوں کو یکے بعد دیگرے آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، اس سلسلے کا آغاز عدالت عظمیٰ کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیوں میں الیکشن میں واضح تاخیر پر ازخود نوٹس لینے سے ہوا۔ جس کے فوراً بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کردیا کہ دس دنوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل نہیں ہوسکتی۔ جب کہ اس سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل دو سے تین دن میں ہونے کا دعویٰ کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
دوسری جانب اسلام آباد میں یہ افواہیں سرگرم ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو اپنے جوہری اثاثوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کا سلسلہ وزارت خزانہ کی طرف سے شروع کیا گیا تھا اور پھر ان رپورٹس کو کچھ صحافیوں نے (ذریعہ سے منسوب کیے بغیر) کور کیا۔ اس افواہ کے پھیلنے کے بعد ایک اتحادی جماعت کے سیسنیٹر نے تزویزاتی جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی کے بارے مین وضاحت طلب کرلی۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس سازشی نظریے کو جان بوجھ کر ہوا دی گئی اور بعد ازاں آئی ایم ایف نے اس پر وضاحت جاری کی۔
ایک اور معاملے میں، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات میں تاخیر کی وضاحت سیکرٹری خزانہ کو بھیجی گئی جس میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت عائد مالی پابندیوں کی وجہ سے انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز دستیاب نہیں تھے۔ ایک بار پھر، آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان اس کی تردید کرتے ہوئے ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔
حکومت کو یہ سلسلہ اب بند کردینا چاہیئے۔ عوام پر مہنگائی کو بوجھ ڈالنے والی پی ڈی ایم حکومت، خصوصاً وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ آئی ایم ایف کی تجاویز پر عمل کرتے ہوئے توانائی کی قیمتیں بڑھادی گئیں ہیں، نئے ٹیکسز کے ساتھ جی ایس ٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ کرنسی کی ایڈجسمنٹ کے ساتھ شرح سود میں اضافے کے بعد بھی ہم اس پروگرام کو بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ کے دور میں گزشتہ جائزے میں مالیاتی خلا کو پُر کرنے کی یقین دہانی پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس وقت، سعودی عرب ودیگر جی سی سی شراکت داروں نے اور جی سی سی کے دیگر شراکت داروں نے آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ میں زبانی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ گروی رکھے ہوئے ڈیپازٹس میں اضافہ یا پھر کسی اور مد میں فنڈز فراہم کریں گے۔
تاہم، ستمبر 2022ء اور مارچ 2023ء کے درمیان ان کے فیصلوں میں تبدیلی آئی ہے، اب وہ اآئی ایم ایف بورڈ میٹنگ سے پہلے مرکزی بینک کو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا کوئی وعدہ نہیں کر رہے اور اس کے بنا آئی ایم ایف سے ایس ایل اے نہیں ہوگا۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی شراکت دار نے نئے قرض دینے سے انکار کردیا ہے۔
یہ پاکستان کا اندرونی تنازعہ ہو سکتا ہے جس کا قرض دہندہ سے کوئی ربط نہیں ہے، لیکن ملک کے مقبول ترین رہنما کے ساتھ جاری کشیدگی (حالیہ سروے میں 61 فیصد کی منظوری کی درجہ بندی) میکرو اکنامک اور سیاسی استحکام کو بحال کرنے میں مدد نہیں کر سکتی۔ ان سب کے بغیر حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاشی استحکام پر گامزن ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
غالباً اس سیاسی انتشار کی وجہ سے جی سی سی ممالک پاکستان کی مدد کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اور ڈیوس اجلاس میں چند ماہ قبل دیے گئے سعودی وزیر خزانہ کا بیان اس بات کا تائید کرتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم امداد فراہم کرنے کا طریقہ کار تبدیل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ماضی میں غیر مشروط دی جانے والی براہ راست امداداور ڈپازٹس الگ کررہے ہیں۔ لہٰذا، پاکستان کو مستحکم معاشی انتظام کاری کے ساتھ سعودیہ فارن پالیسی کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیئے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ حکومتی سنجیدگی کا مظہر گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا، جب خالصتاً سیاسی مقاصد کے تحت پیٹرول، گندم اور دیگر نئی سبسڈیز کا اعلان کردیا گیا۔
مثال کے طور پر، صوبائی حکومتیں عوام کو سستا آٹا فراہم کرتی ہیں، لیکن اس کی تقسیم کاری کے درمیان بدعنوانی کے امکانات ہیں، دوسری جانب مفت گندم کا آٹا حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے لوگ مر رہے ہیں۔ جب کہ ایندھن پر سبسڈی کے پروگرام کو کچھ تحفظات کی وجہ سے نامنظور کر دیا ہے۔ کیوں کہ آئی ایم ایف نے اس کے بجائے سبسڈی وصول کنندگان کو براہ راست نقد رقم دینے کی تجویز دی ہے۔
مجموعی طور پر، حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے معاشی انتظام کاری میں ناکام ہورہی ہے ۔ جب کہ بعض سابق سعودی اور امریکی سفارت کاروں کے مطابق انتخابات ہی سیاسی استحکام حاصل کرنے کا واحد راستہ ہیں۔
تاہم، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت ہر حال میں عام انتخابات کرانے سے گریزاں دکھائی دے رہی ہے۔ جس سے ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔