تحریر: لیفٹننٹ جنرل (ر) طارق خان
ترجمہ : مجاہد خٹک
‘اچھے لوگوں کی قومی معاملات میں بے حسی کا نتیجہ برے لوگوں کی حکمرانی پر منتج ہوتا ہے’ افلاطون
مجھے کوئی آرٹیکل یا تحریر لکھے یا اپنے خیالات بیان کیے کافی دن گزر گئے ہیں، اس کی وجوہات میں ناقابل یقین عدالتی فیصلے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ہیراپھیریاں، مقامی پولیس پر اثرانداز ہونا، الیکشن کمیشن آف پاکستان کا بےاثر ہونا، میڈیا کا گلہ گھونٹا، قومی احتساب بیورو (نیب) کے مکمل پر کاٹ دینا، پاکستان کے شہریوں کا بحیثیت مجموعی اور ان کے خیالات و آراء کا غیرمتعلق، بے نتیجہ اور غیراہم ہو جانا شامل تھا۔
ایسے ماحول میں جبکہ کسی کو کچھ پرواہ نہیں اور نہ ہی کسی چیز کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے، میری بات کو کس نے سنجیدہ لینا تھا۔ آخر میں ہوتا کون ہوں جو تقدیر کے تضادات اور قسمت کی ستم ظریفی کو چیلنج کرتا پھرے۔ پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کو ایک طرف کر دیا گیا ہے جبکہ چھوٹے چھوٹے مسترد شدہ اور مشکوک گروہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اس ملک کے عوام پر حکمرانی کر رہے ہیں کیونکہ اس گروہ کے لیے ایک چور راستہ تخلیق کیا گیا جسھے وہ ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔
نیلامی انتخابات کا متبادل بن گئی اور اس کے نتیجے میں ہم ایسی کابینہ دیکھ رہے ہیں جس کے 70 فیصد افراد مالی اور پراپرٹی سے متعلقہ جرائم اور اختیارات کے غلط استعمال کے ملزم ہیں۔ انہوں نے نظام انصاف میں موجود لچک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے خلاف ماضی کے فیصلوں کو ختم کرا دیا ہے۔ انہوں نے یک رخی پارلیمنٹ سے ایسے قوانین منظور کرائے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اس ٹیڑھے میڑھے نظام میں کوئی اخلاقی، آدرشی، قانونی یا انتظامی جائے پناہ باقی نہیں بچی۔ ایسے لوگ اقتدار میں آ چکے ہیں جو ہم جیسے کمتر افراد کو راست بازی کی خطیبانہ تبلیغ کرتے ہیں جبکہ ان کے اپنے سیاہ قلوب میں منافقت کے بادل تیر رہے ہیں۔
اس منظرنامے کو لوٹ پوٹ کر دینے والے مزاح کا نمونہ سمجھا جا سکتا تھا اگر ان لوگوں کی نااہلی اور بے حسی عوام کے لیے تباہ کن نہ ہوتی۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ مجرموں کا جو گروہ ملک پر قابض ہو گیا ہے، وہ اب اخلاقیات کا درس یوں دیتا ہے جیسے وہ اس موضوع پر ایک اتھارٹی ہو جبکہ آئین پاکستان کہتا ہے کہ کائنات اللہ کی ملکیت ہے اور منتخب افراد زمین پر اس کے نمائندے ہوں گے۔
کیا واقعی یہی لوگ اللہ کے نمائندے ہوں گے؟ کیا ہم نے ہی انہیں منتخب کیا ہے؟
حال ہی میں، میں نے انہی لوگوں کی ایک پریس کانفرنس دیکھی جس میں وہ نام نہاد سائفر کے متعلق تضادات اور منافقت سے بھرا تجزیہ پیش کر رہے تھے۔ میں کانفرنس میں بات کرنے والوں کی دیدہ دلیری پر حیرت زدہ رہ گیا اور وہ جس طرف معاملے کو لے جا رہے تھے اسے دیکھنا ناقابل یقین تجربہ تھا۔
وہ ان آڈیو لیکس پر رائے دے رہے تھے جس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سائفر کے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ آڈیو پی ٹی آئی سامنے نہیں لائی تھی بلکہ اسے حکومت کی جانب سے افشا کیا گیا تھا۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کی گئی گفتگو افشا کرنا بذات خود آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس گفتگو میں کچھ ایسا نہیں تھا جس کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا جا سکے، الٹا ان آڈیو لیکس نے اس سب پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے جو پی ٹی آئی رہنما مسلسل کہہ رہے تھے۔
پریس کانفرنس کا مقصد ہیکر، یا وہ جو بھی ہے، کی جانب سے مسلم لیگ نون کے متعلق افشا کی گئی ان آڈیوز پر مٹی ڈالنا لگ رہا تھا جن میں زیادہ سنگین انکشافات کیے گئے تھے۔ لیکن پھر وہی بات آ جاتی ہے کہ کون اس کی پرواہ کرتا ہے یا پھر ان میں سے کوئی کس لیے متفکر ہو؟
جارج آرویل کے ان الفاظ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک کہ گائیں واپس آتی رہیں، آمرانہ حکومتیں اخلاقی قوت کا مقابلہ کر سکتی ہیں، درحقیقت جس سے یہ حکومتیں ڈرتی ہیں وہ جسمانی قوت ہے۔
خیر، میں نے اب بولنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ مجھے سائفر لیکس کے متعلق تحقیقات کرنے کا کہا گیا تھا۔ لیکن میں خواہش کے باوجود اس معاملے میں نہیں پڑا جس کی وجوہات میں کئی انٹرویوز اور مضامین میں بیان کر چکا ہوں۔
میری وضاحتوں کے باوجود ایسے سخت گیر گروہ موجود ہیں جو اب بھی مصر ہیں کہ میں کسوٹی پر پورا نہیں اترا اور یہ کہ مجھے اپنے تمام تر تحفظات کے باجود اس کام کی ذمہ داری لینی چاہیئے تھی۔ میں اب ان لوگوں کی توجہ اس بھدے، بھونڈے اور تقریباً مجرمانہ طرزعمل کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جس میں ہر انتظامی عضو کو استعمال کیا گیا، اس پر اثرانداز ہوا گیا اور اسے کام نہیں کرنے دیا گیا۔
میرا نکتہ نظر یہ تھا کہ مجھے کسی صورت شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایسے وقت میں جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے لگی تھی، کوئی بھی مجھے تحقیقات مکمل کرنے کے لیے درکار شواہد فراہم کرنے میں تعاون نہ کرتا۔
موجودہ صورتحال کے مدنظر میں ان تمام نقادوں سے پوچھتا ہوں کہ اب وہ کیا کہتے ہیں؟ جن کے خلاف سازش کا الزام تھا انہوں نے سائفر کے کیس میں کابینہ سے الٹا پی ٹی آئی کے خلاف تحقیقات کی منظوری حاصل کر لی ہے۔ یہی اصل معاملہ تھا جس پر میں مسلسل بات کر رہا تھا۔
اب ایک متعصب اور جانبدارانہ تفتیش شروع ہو سکتی ہے جو پی ٹی آئی کو ایسے معاملے میں قصوروار ٹھہرائے گی جسے میں اس وقت سمجھنے سے قاصر ہوں۔
ہر کوئی آرٹیکل 6 اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ماہر بنا ہوا ہے اور پی ٹی آئی کے خلاف ایک معاندانہ مہم جاری ہے کہ کس طرح وہ کیس کو سیاسی رنگ دینے کی قصوروار ہے، جبکہ میرا ہمیشہ سے سابقہ حکومت کے خلاف شکوہ تھا کہ جونہی اسے سازش کا علم ہوا تھا اس نے اس میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کیوں نہیں کیا۔
اب جبکہ تحقیقات کا حکم صادر ہو چکا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ کسے اس کی ذمہ داری سونپی جائے گی، اسی سے یہ اشارہ مل جائے گا کہ اس کیس کا رخ کس طرف ہے۔ مجھے یہی نظر آ رہا ہے کہ تحقیقات کا مقصد سازش کرنے والوں کو بریت دلانا ہے، ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ کسی طرح پی ٹی آئی پر اس کا ملبہ ڈالا جا سکے۔
اس وقت روس یوکرین کی جنگ کے باعث یورپ مشتعل ہے، عالمی معیشت کسادبازاری کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، افغانستان ہم پر دوغلے پن کا الزام عائد کررہا ہے، بھارت کشمیر میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا رہا ہے، پاکستان سیلاب سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہا ہے، ٹی ٹی پی چھوڑے گئے علاقوں کو واپس لینے کی دھمکی دے رہی ہے اور ہم کن معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔
ہمارا ملک ‘مجرموں کی جمہوریت، مجرموں کے لیے، مجرموں کے ذریعے’ کا مظہر بن چکا ہے جبکہ عوام بھیڑ بکریوں کی طرح بےمثل خاموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ چارلس فورئیر کے الفاظ یاد رکھیے جس نے کہا تھا کہ ‘آمر ایسے کتے کی دوستی کو ترجیح دیتے ہیں جو برے سلوک اور تذلیل کے باوجود، اس شخص سے محبت کرتا ہے اور اسی سے وفادار رہتا ہے جس نے اس کے ساتھ برائی کی ہوتی ہے۔
‘خدا کا خصوصی کرم ہے کہ ہمارے ملک میں تین ناقابل بیان چیزیں موجود ہیں، اور وہ ہیں آزادی اظہار رائے، آزادی ضمیر، اور ان دونوں پر عمل نہ کرنے کی دانشمندی’ مارک ٹوین