مکمل طور پر خودکار گاڑیاں بنانا ممکن نہیں: کمپنیوں کی پریشانی میں اضافہ

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی مداخلت سے آزاد ڈرائیور کے بغیر چلنے والی خودکار گاڑیاں بنانا ممکن نہیں ہے۔
خبررساں ایجنسی رائٹرز میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کے سی ای اوز اور ماہرین کا کہنا ہے کہ روبوٹ ڈرائیورز کو گاڑی چلانے کے لیے دور بیٹھے انسانوں کی نگرانی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی۔
خودکار گاڑیوں کے متعلق بنیادی مفروضہ یہ رہا ہے کہ وہ کمپیوٹرز اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان حادثات سے محفوظ رہیں گے جو انسانی غلطی کے باعث وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
تاہم اس مفروضے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایسی گاڑیوں میں نصب سافٹ وئیر خطرے کو بھانپ لینے والی صلاحیت سے محروم ہوں گے، یہ نظام اس وقت ناکام ہو سکتا ہے جب ڈرائیونگ کے دوران اچانک غیرمتوقع صورتحال پیش آ جائے گی۔
جنرل موٹرز کے ایک شعبے “کروز” کے سی ای او کائل واٹ سے جب سوال پوچھا گیا کہ کیا ایسا وقت آ سکتا ہے جب دور بیٹھ کر نگرانی کرنے والے انسانوں کو خود کار گاڑیوں کی دیکھ بھال سے ہٹا دیا جائے تو ان کا جوابی سوال تھا کہ “کس لیے ایسا کیا جائے؟”
انہوں نے کہا کہ میں اپنی گاڑیوں کے گاہکوں کو یہ اطمینان دلانا چاہوں گا کہ ایک انسان ہر وقت ان کی مدد کے لیے موجود ہو گا، میں کس لیے اس انسان کو نظام سے ہٹانا چاہوں گا؟
یہ پہلا موقع ہے جب کروز نے انسانی آپریٹرز کی طویل مدت تک ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔
فضائی ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے افراد کی طرح یہ لوگ بھی ہزاروں میل دور بیٹھ کر ان ویڈیوز کو دیکھ رہے ہوں گے جو بیک وقت کئی خودکار گاڑیوں کی جانب سے موصول ہو رہی ہوں گی، کبھی یہ گاڑی کے سٹیرنگ کو سنبھال لیں گے اور کبھی گومگو کے شکار روبوٹ ڈرائیورز کو پھر سے رواں دواں کر سکیں گے۔
رواں برس جون میں سان فرانسسکو میں ایک خودکار گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں دو افراد زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد جنرل موٹرز نے 80 کروز گاڑیاں واپس منگوا کر ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کر دیا تھا۔
امریکہ کے سیفٹی ریگولیٹرز کا کہنا ہے کہ نیا سافٹ وئیر بھی سامنے آنے والی گاڑیوں کے راستے کی درست پیش گوئی نہیں کر پائے گا جبکہ  کروز کمپنی کا کہنا ہے کہ اپ ڈیٹ کے بعد یہ غیرمعمولی صورتحال دوبارہ پیش نہیں آئے گی۔
2018 میں جنرل موٹرز نے امریکی حکومت کو ایسی گاڑیوں کی منظوری کی درخواست دی تھی جن میں سٹیرنگ ویل، بریک اور رفتار بڑھانے والے پیڈل موجود نہ ہوں، کمپنی کا کہنا تھا کہ 2019 میں یہ گاڑیاں سواری شئیر کرنے والی سروس کا حصہ بن جائیں گی لیکن کروز اوریجن نام کی ان گاڑیوں کی پیداوار 2023 کے موسم بہار سے پہلے ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح 2019 میں ٹیسلا کے سی ای او ایلان مسک نے اعلان کیا تھا کہ اگلے برس ان کی کمپنی کی لاکھوں روبوٹ ٹیکسیاں ہر صورت مارکیٹ میں پہنچ جائیں گی، اس وقت ان کی مکمل خودمختار گاڑیوں کے تصور پر تنقید کی گئی تھی۔
جون میں ایک انٹرویو کے دوران ایلان مسک نے اعتراف کیا کہ خودکار گاڑیاں بنانا ان کے ابتدائی تصور سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے، ان سے جب ٹائم لائن کا پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ٹیسلا اسی برس ایسی خودکار گاڑیاں بنا لے گی۔
ایج کیس ریسرچ خودکار گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو خطرات کے جائزے اور ان سے بچاؤ کے لیے مشاورت فراہم کرتی ہے۔ اس کے سی ای او مائیک ویگنر کا کہنا ہے کہ اگر یہ کمپنیاں اگلے دو برس میں ایسی گاڑیاں نہ بنا سکے تو یہ ختم ہو جائیں گی۔
اس وقت تک زیادہ تر کمپنیاں خودکار گاڑیوں کے لیے نہ صرف دور بیٹھے انسانوں کی نگرانی رکھتی ہیں بلکہ سٹیرنگ ویل کے پیچھے بھی ڈرائیورز بیٹھے ہوتے ہیں۔
انسانوں کی نگرانی کا مقصد زیرتعمیر سڑک کی غیرمتوقع بندش اور پیدل چلنے والوں یا دیگر گاڑیوں کے ڈرائیورز کی اچانک غلطی کی صورت میں حادثات سے بچانا ہوتا ہے۔
امپیریم ڈرائیو برطانوی شہر ملٹن کینز میں خودکار گاڑیوں کے لیے انسانی نگرانی کی خدمات مہیا کرتی ہے، اس کے سی ای او کوشا کاوے کا کہنا ہے کہ جب کوئی غیرمتوقع صورتحال سامنے آتی ہے تو روبوٹ ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔
ان کا کہنا ہے کہ اگلی کئی دہائیوں تک سو فیصد خودمختار گاڑیوں کا بننا ممکن نہیں، اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ نگرانی کرنے والے انسانوں کا کردار فضائی ٹریفک کو کنٹرول کرنے والوں جیسا ہو جائے گا۔
خودکار گاڑیوں کی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والے اس تشویش کا شکار ہونے لگے ہیں کہ یہ شعبہ کب نفع کمانے لائق ہو سکے گا، ایک اندازے کے مطابق صرف خودکار گاڑیوں پر توجہ مرکوز کرنے والی کمپنیوں کو دوسری سہ ماہی میں 10 فیصد کم سرمایہ کاری حاصل ہوئی ہے۔
کمپنیوں کو مشاورت فراہم کرنے والے ماہر کرس برونی برڈ کا کہنا ہے کہ جس طرح انسانی ذہن معلومات کو پراسیس کر کے فیصلے کر سکتا ہے، گاڑیوں کے سافٹ وئیر اس طرح کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
انہوں نے بطور مثال بتایا کہ اگر سڑک پر اچانک کوئی گیند آ جائے تو انسان ڈرائیور کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس کے پیچھے ایک بچہ بھی سڑک پر آ سکتا ہے، اس لیے وہ روبوٹ کی نسبت زیادہ تیزی سے بریک لگا دے گا۔
اسی طرح اے بی ڈائنامکس کے سی ای او جیمز روتھ کا کہنا ہے کہ گاڑی چلاتے وقت اچانک پیش آنے والے واقعات اربوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔
- Advertisement -
مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین

ٹویٹر کی خریداری کے بعد ایلان مسک کا اسے سپر ایپ میں بدلنے کا اعلان

ایلان مسک جمعرات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر...

ڈالر کی اڑان اور روپے کی بےقدری کا رجحان مسلسل جاری

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی...

برطانیہ میں ریکارڈ مہنگائی، معیشت کساد بازاری کے خطرے سے دوچار

برطانوی معیشت میں جولائی میں توقعات سے کم اضافہ...