عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور وزارت خزانہ کے مذاکرات ایک بار پھر نے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر قابو کرنے کے بجائے اسے مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے تاہم وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر نہیں بھیج رہا۔
ایکسپریس ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے جمعرات کو وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے ہونے والی ملاقات میں روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کی بنیاد پر کرنے پر زور دیا۔
آئی ایم ایف نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستانی حکام بینکوں اور کرنسی ڈیلرز پر انتظامی دباؤ کے ذریعے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر کنٹرول کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ حکومت روپے کی قدر کو قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کر رہی۔
روپے کی قدر اور توانائی کے شعبے میں مسائل پر عدم اتفاق کے باعث یہ ملاقات بے نتیجہ ثابت ہوئی۔
اسٹیٹ بینک کے 21 دسمبر کو جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر صرف 6 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں، اس کے باوجود روپے کی قدر میں کوئی خاص کمی نہیں آئی۔
اس وجہ سے یہ تاثر عام ہے کہ حکومت روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کر رہی ہے اور انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں غیررسمی انداز میں روپے کی قدر طے کر رہی ہے۔
صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے 250 روپے کا ڈالر خریدنا پڑا ہے جبکہ انٹربینک میں ڈالر کی قدر 225.64 روپے بتائی جا رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بینکوں کا کرنسی سے غیرمعمولی منافع حاصل کرنے کے حالیہ اسکینڈل کو حکومت ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور بینکوں کو بھاری جرمانے کا ڈراوا دے کر ڈالر کی قدر پر اثرانداز ہو رہی ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ نومبر کے اختتام تک کرنسی سے ناجائز منافع کمانے والے بینکوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے مگر ابھی تک کسی ایک بینک پر بھی یہ جرمانہ عائد نہیں کیا گیا۔
اسٹیٹ بینک نے اپنے آخری مالیاتی پالیسی بیان میں خبردار کیا تھا کہ اوپن مارکیٹ، بلیک مارکیٹ اور انٹربینک میں روپے کی قدر میں غیرمعمولی فرق کی وجہ سے بیرون ملک ترسیلات زر بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔
جولائی اور نومبر کے درمیان ترسیلات زر 9 فیصد کمی کے ساتھ 12 ارب ڈالرز تک رہیں، ان میں صرف 5 ماہ میں 1.2 ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوئی ہے۔
روپے کی قدر کو مارکیٹ پر چھوڑنا آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے تاہم ایسا کرنے کی صورت میں افراط زر میں اضافہ یقینی ہے جو مخلوط حکومت کی عوام میں عدم مقبولیت کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کا جنوری کے پہلے ہفتے میں پاکستان آنے کا امکان اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
آئی ایم ایف کے 9ویں جائزہ پر مذاکرات میں تاخیر کی وجہ سے حکومت کو اس ادارے کی جانب سے 1.1 ارب ڈالر کی قسط موصول ہونے میں دیر ہو رہی ہے، اس قسط کی منظوری کے بعد ہی دیگر قرض دینے والے اداروں سے پاکستان کو مدد مل سکے گی۔
پاکستان نے جنوری سے مارچ کے دوران 8.5 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں جبکہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔
اس بات کا امکان ہے کہ اس عرصے میں متحدہ عرب امارات اور چین اپنے دو دو ارب ڈالر کے قرضے موخر کر دیں، ایسا ہونے کے باوجود پاکستان کو 4.5 ارب ڈالرز کا قرض واپس کرنا ہو گا۔