گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعلیٰ پرویزالہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تو اسپیکر سبطین خان نے اس ہدایت کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلی کا اجلاس موخر کر دیا۔
گورنر نے وزیراعلیٰ کو بدھ کو 4 بجے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تھی، ساتھ ہی اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی جمع کرا دی ہے۔
پی ڈی ایم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ آج 4 بجے 186 ارکان کی حمایت حاصل نہیں کرتے تو وہ اپنے منصب پر قائم نہیں رہیں گے جبکہ پی ٹی آئی کے مطابق گورنر کا اقدام آئین اور رولز کے مطابق نہیں ہے۔
سپیکر سبطین خان نے دو صفحات پر مشتمل رولنگ میں کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پہلے سے جاری ہے، ایک چلتے ہوئے اجلاس میں دوسرا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔
ان تمام معاملات کے باعث صورتحال پیچیدہ ہو چکی ہے، اگرچہ کئی معروف قانون دان سپیکر پنجاب اسمبلی کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ ایک بار پھر قانونی جنگ شروع ہو جائے گی۔
گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کیا جواز دیا؟
گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے پیر کے روز وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا ہدایت نامہ جاری گیا جس میں انہیں بدھ کو 4 بجے اس ہدایت پر عمل کرنے کا کہا گیا۔
گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے چوہدری پرویز الہٰی کے حالیہ انٹرویوز، کابینہ میں ایک رکن کے اضافے سے عمران خان کی لاعلمی اور ایک وزیر کے استعفیٰ دینے کو جواز بنایا۔
انہوں نے لکھا کہ اس صورتحال میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کے درمیان دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں اور میں مطمئن ہوں کہ وزیراعلیٰ ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
گورنر کے اس جواز پر بہت سے تجزیہ کاروں نے سخت تنقید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب کو پرویز الہٰی کی روزانہ کی یہ یقین دہانی کیوں نظر نہیں آئی جس میں وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کی بات کرتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کے مشترکہ طور پر 190 ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 180 ہے۔
اعتماد کا ووٹ اور عدم اعتماد کی تحریک میں کیا فرق ہے؟
جب گورنر کسی وزیراعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کرتا ہے تو وزیراعلیٰ کے لیے اپنی اکثریت ثابت کرنا ضروری ہو جاتا ہے، پنجاب اسمبلی کے نتاظر میں چوہدری پرویز الہٰی کو 186 اراکین کی حمایت دکھانا لازم ہے۔
اس کے برعکس جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو اپنی عددی اکثریت ثابت کرنا حزب اختلاف کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اگر حکومت کے 5 اراکین اعتماد کا ووٹ لیتے وقت غیرحاضر ہو جاتے ہیں تو وزیراعلیٰ کو درکار 186 ارکان پورے نہیں ہو سکیں گے۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گورنر کی جانب سے اتنی جلدی اعتماد کے ووٹ کی تاریخ دینا بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ ایک روز میں تمام اراکین اسمبلی کو اکٹھا کرنا ممکن نہیں رہتا۔
قانونی ماہرین کے مطابق بہت سے اراکین ملک سے باہر گئے ہوتے ہیں جن کی واپسی میں وقت درکار ہوتا ہے، اس لیے گورنر کو بھی مناسب وقت دینا چاہیئے۔
ان کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بھی آئین میں 3 سے 7 دن کا وقت مقرر کیا گیا ہے، اعتماد کے ووٹ کے لیے بھی وزیراعلیٰ کو وقت ملنا چاہیئے۔
معاملہ عدالت میں جانے سے کس کا فائدہ ہے؟
بادی النظر میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ سارے معاملات عدالتوں میں جائیں گے اور ان کا فیصلہ بھی وہیں ہو گا۔
اس وقت پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اسمبلی جلد تحلیل ہو تاکہ ماہ رمضان سے قبل ہی انتخابات ہو سکیں جبکہ وفاقی حکومت انتخابات میں تاخیر چاہتی ہے کیونکہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت عروج پر ہے۔
عدالتوں میں اگر یہ معاملات لٹک گئے اور طویل قانونی جنگ چھڑ گئی تو اس کا فائدہ پی ڈی ایم کو ہو گا جو اسمبلیوں کی فوری تحلیل نہیں چاہتی۔
گزشتہ 8 ماہ میں بہت سی سیاسی لڑائیاں انصاف کے ایوانوں میں لڑی گئی ہیں اور ان تمام کا فیصلہ کرنے میں عدالتوں نے تاخیر نہیں کی۔
اگر موجودہ بحران پر بھی عدالتیں جلد فیصلہ سنا دیتی ہیں تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہی ہو گا جبکہ تاخیر کی صورت میں پی ڈی ایم کی دلی مراد پوری ہو گی۔