کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے 28 نومبر کو حکومت کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کے اعلان کے بعد حملے تیز کر دیے ہیں۔
بدھ کو کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے میں 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں ایک پولیس والے سمیت ایک خاتون اور بچہ شامل تھا جبکہ 27 افراد زخمی ہوئے تھے، ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
خودکش حملہ آور نے پولیو ٹیموں کے تحفظ کے لیے جانے والی پولیس کی بس کے ساتھ بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی تھی۔
لکی مروت میں دہشت گردوں نے 16 نومبر کو گھات لگا کر 6 پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا تھا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ٹی ٹی پی کے خلاف بڑا آپریشن شروع کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگ بندی ختم ہونے سے پہلے ہی ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں میں کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں کابل میں بیٹھی ٹی ٹی پی قیادت کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس تنظیم کے کئی اہم افراد ان حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں، موجودہ کارروائیاں ان حملوں کا ردعمل ہو سکتی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبون نے 3 دسمبر کے اداریے میں اس امکان کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنی قیادت پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے افغان حکومت کو بھی شک کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور وہ جواب میں داعش کے ساتھ ہاتھ ملا سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی محسود نے ان واقعات کے بعد اپنی سرگرمیاں محدود کر دی ہیں تاکہ وہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نظروں سے محفوظ رہ سکیں۔
قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ادغام کے بعد وہاں کی پولیس ابھی تک روایتی خاصہ داروں پر مشتمل ہے جس کے پاس اسلحہ اور دیگر سہولیات کی شدید کمی ہے جس کے باعث وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ مختلف مقامات پر خاصہ دار اپنی چوکیاں خالی کر کے گھر چلے گئے ہیں کیونکہ سہولتوں کی کمی کے باعث وہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر(ر) سید نذیر کا کہنا ہے کہ سوات میں طالبان کی آمد کے خلاف جس طرح بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور وہاں سے ٹی ٹی پی کو واپس جانا پڑا، اس کے بعد یہ حملے تیز کیے گئے تاکہ حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا جا سکے۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق وزیر ایاز وزیر کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر مذاکرات کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کو سوات کی پہاڑیوں میں آنے کی اجازت دی گئی اور کہا گیا کہ جب تک امن معاہدہ نہیں ہوتا وہ نیچے نہیں آئیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں تعطل آنے کی وجہ ٹی ٹی پی کا یہ مطالبہ تھا کہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا کے ساتھ ادغام ختم کیا جائے۔
اس مطالبے کو سنجیدہ حلقے شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی ان علاقوں کو اپنی ریاست بنانا چاہتی ہے تاکہ یہاں خود کو محفوظ رکھ کر اپنی کارروائیوں کو دیگر ملک میں پھیلا جا سکے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے گزشتہ روز بیان دیا تھا کہ پارلیمنٹ نے فوجی قیادت کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے۔
تاہم پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے پارلیمنٹ سے اجازت نہیں لی گئی، قومی سلامتی کی پارلیمنٹری کمیٹی کو فوج کی جانب سے مذاکرات کے متعلق صرف مطلع کیا گیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے فوج کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں دیا۔
اس صورتحال میں حکومت مکمل کنفیوژن کا شکار ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ دہشت گردی کے اس عفریت کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث ٹی ٹی پی کو ان علاقوں میں داخلے کا موقع مل گیا ہے جہاں سے اسے پاک فوج نے قربانیاں دے کر نکالا تھا۔
بزنس ریکارڈر نے اپنے یکم دسمبر کے اداریے میں لکھا کہ پاکستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری لانے کے لیے حکومت کو اپنی سرحدیں محفوظ کرنے کی ضرورت ہے چاہے اس کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اخبار نے حکومت کو افغان طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی تجویز دیتے ہوئے لکھا کہ بات چیت بار بار ناکام ہوتی رہی ہے، اس بے سود عمل کا وقت ختم ہو چکا ہے۔