برطانوی معیشت میں جولائی میں توقعات سے کم اضافہ ہوا ہے جس کے باعث کساد بازاری کے خطرات حقیقت کا روپ دھارتے دکھائی دیتے ہیں۔
توانائی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے بجلی کی طلب متاثر ہو رہی ہے جبکہ سازوسامان کی قیمتوں میں یکدم ہونے والے اضافے نے تعمیراتی شعبے کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔
خبررساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ میں افراط زر کی شرح 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 40 برسوں میں سب سے زیادہ ہے، ملکی معیشت کی شرح نمو (جی ڈی پی) میں جون کے بعد 0.4 فیصد اضافے کا اندازہ تھا لیکن اس کی شرح صرف 0.2 فیصد رہی ہے۔
بعض ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ جولائی سے ستمبر کے دوران معیشت سکڑ رہی ہے جو اس سے قبل اپریل سے جون کے درمیان 0.1 فیصد تک رہی تھی۔
پی ڈبلیو سی کے ماہر معاشیات جیک فنی کا کہنا ہے کہ ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد پہلی بار برطانوی معیشت تکنیکی کساد بازاری کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔
ایک اور ماہر معیشت پال ڈیلز کے مطابق جولائی میں مایوس کن شرح نمو یہ ظاہر کرتی ہے کہ معیشت نے تیزی نہیں پکڑی اور غالباً کساد بازاری کا شکار ہو چکی ہے۔
اگست میں بنک آف انگلینڈ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2022 کے اواخر سے لے کر 2024 کی درمیانی مدت میں دنیا کی پانچویں بڑی معیشت پر کساد بازاری چھائی رہے گی، اس کی بڑی وجہ یوکرین جنگ کے باعث توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے جس نے معیار زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے لز ٹرس نے گھریلو توانائی کی قیمتیں بڑھنے پر روک لگانے کا اعلان کیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں میں متوقع کمی کی وجہ سے معیشت کو لاحق طویل مدتی نقصان کے خطرات میں کمی واقع ہوئی ہے، تاہم یہ اقدامت پہلے سے ہی دباؤ کا شکار برطانوی مالیات پر 116 ارب ڈالرز کا بوجھ ہوں گے۔
برطانوی ادارہ شماریات (او این ایس) کے مطابق توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین کے اطوار میں تبدیلی کے شواہد موجود ہیں کیونکہ توانائی کی طلب میں کمی واقعی ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ اگست 2021 سے جولائی 2022 کے بارہ ماہ کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 54 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
تعطیلات کے اثرات
جون میں ملکہ الزبتھ کے تخت نشینی کے 70 سال مکمل ہونے پر دو روزہ تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا اور اس ماہ قومی شرح نمو میں 0.6 فیصد کمی واقعی ہوئی تھی، او این ایس کے ترجمان کے مطابق جولائی میں تعطیلات کے اثرات سامنے نہیں آئے۔
پنتھیون میکرواکنامکس کے سیموئل ٹومب کا کہنا ہے کہ ملکہ کی تدفین کے لیے مختص 19 ستمبر کو ہونے والی تعطیل کی وجہ سے معاشی پیداوار میں 0.2 فیصد پوائنٹس کی کمی آ سکتی ہے لیکن معیشت کساد بازاری کو چھوتے ہوئے محفوظ طریقے سے آگے بڑھ جائے گی۔
معیشت کی شرح نمو میں واقع ہونے والی کمی کے باوجود بنک آف انگلینڈ 22 ستمبر کو شرح سود میں اضافہ کرنے والا ہے تاکہ 10 فیصد سے اوپر پہنچ جانے والے افراط زر کو کم کیا جا سکے۔
او این ایس کے مطابق جولائی میں آنے والی گرمی کی ریکارڈ توڑ لہر بھی توانائی کی طلب میں کمی کی وجہ ہو سکتی ہے اگرچہ اس دوران آئس کریم کی طلب بڑھ گئی تھی اور لوگوں نے تفریحی پارکس اور گولف کلبز کا رخ کر لیا تھا۔
جولائی میں خدمات کے شعبے میں ماہانہ بنیادوں پر 0.4 فیصد اضافہ ہوا تھا لیکن صنعتی پیداوار میں 0.3 فیصد اور تعمیراتی شعبے میں 0.8 فیصد کمی آئی تھی، اس کی وجوہات میں سازوسامان کی بڑھتی قیمتیں، افراط زر میں اضافہ اور گرمی کی لہر کے باعث کام کے اوقات میں کمی شامل تھے۔
- Advertisement -