پاکستانی معیشت تنزلی کی راہ پر گامزن، وجوہات کیا ہیں؟

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

پاکستان کے مرکزی بنک اور وزارت خزانہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج درآمدات اور برآمدات میں فرق کو کم کرنا ہے تاکہ جاری کھاتوں کے خسارے میں کمی لائی جا سکے، لیکن اس کے لیے جو اقدامات لیے جا رہے ہیں وہ آزادانہ معیشت کے تصور کے خلاف ہیں۔
معروف جریدے بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق معیشت تنزلی کا شکار ہے اور حکومتی اقدامات اعتماد کو مزید کم کر رہے ہیں، کئی کاروبار خام مال اور سپیئر پارٹس وغیرہ کے لیے ایل سی کھلوانے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
بعض شعبوں میں درآمدات پر غیررسمی پابندیاں عائد ہیں، ان میں گاڑیوں اور سمارٹ فونز کی صنعتیں شامل ہیں جن کا کوٹا آدھا کر دیا گیا ہے، گھریلو سازوسامان تیار کرنے والے اپنے کاروبار بند کر رہے ہیں۔
اسی طرح ٹیکسٹائل اور اس سے متعلقہ کاروباری افراد مشینری اور پارٹس کی درآمد پر پابندیوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔
بااثر کاروباری شخصیات کی شکایات کو عارضی بنیادوں پر نمٹایا جا رہا ہے، مرکزی بنک کے ڈپٹی گورنر کے دستخط اور وزیراعظم و وزیر خارجہ سمیت دیگر وزرا کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد منظوری دی جاتی ہے۔
اخبار کے مطابق مکمل انتشار کا ماحول ہے اور اس کے برے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں جن میں مالی معاملات شامل ہیں کیونکہ درآمدی سطح پر آدھے ٹیکس وصول کر لیے جاتے ہیں۔
ان حالات میں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور قلت کے باعث اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اسی طرح درآمدات کرنے والوں کے لیے خام مال کی درآمد مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے درآمدات کنندہ پارٹس اور چھوٹے موٹے خام مال کی متعلق ایل سی کھولنے کے لیے وزیر خزانہ سے درخواستیں کرتے پھرتے ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ اشیاء کی طلب میں اضافے اور تیزی سے قدر کھوتی کرنسی کی وجہ سے پیداواری لاگت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بڑھتی قیمتوں کے بنیادی اجزا میں توانائی اور خام مال شامل ہیں۔
ادویات جیسی صنعتیں، جن میں قیمتوں کا تعین حکومت کرتی ہے، وہ یا تو پیداوار ختم کر رہی ہیں یا اسے بہت کم کر رہی ہیں کیونکہ حکومت قیمتیں نہیں بڑھا رہی۔
جو کاروباری کام جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے سرمائے کا حصول مشکل تر ہو رہا ہے کیونکہ بنک خطرات مول لینے سے کترا رہے ہیں۔
آنے والے مہینوں میں یہ تمام عوامل مل کر بدترین نتائج سامنے لانے والے ہیں، اشیاء اور خدمات کی بڑے پیمانے پر کمی واقعی ہو گی، معیار بری طرح متاثر ہو گا، برآمدات بھی متاثر ہوں گی اور بیروزگاری بہت بڑھے گی۔
درآمدات اور پیداوار میں کمی کی وجہ سے حکومت کو کم محاصل وصول ہوں گے، آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عمل کے لیے نئے ٹیکس عائد کیے جائیں گے جس سے وہ شعبے متاثر ہوں گے جو پہلے ہی بھاری ٹیکسوں کے نیچے کراہ رہے ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر نفع میں کمی کریں گے جس سے پیداوار بھی کم ہونے لگے گی۔
درآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی لوگ ادائیگیوں کے لیے بلیک مارکیٹ کی جانب رخ کرنے لگے ہیں، وہ مال کے حصول کے لیے ڈیلرز سے رابطہ کرتے ہیں جو بلیک مارکیٹ سے ڈالرز حاصل کر کے اس سے ادائیگیاں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے روپے پر مزید دباؤ بڑھے گا۔
اس صورتحال کو سیلاب نے مزید گھمبیر کر دیا ہے، معیشت بڑھتے مالی خسارے، بلند ہوتے افراط زر، شرح نمو میں کمی اور کم ملازمتوں جیسی صورتحال کی جانب رواں دواں ہے۔
- Advertisement -
مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین

یہ پاکستان کی معاشی تاریخ کا بدترین دور ہے، ڈاکٹر حفیظ پاشا

آج پاکستان اپنی 75 سالہ تاریخ کے بدترین معاشی...

پاکستان کا معاشی مستقبل خطرے میں ہے، پاکستان بزنس کونسل

ملک کے سب سے بڑے کاروباری پلیٹ فارم ’پاکستان...

اسٹیٹ بینک کا شرح سود 20 فیصد کرنے کا اعلان

اسٹیٹ بینک پاکستان نے شرح سود میں 300 بیسس...

پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، فنانشل ٹائمز کی رپورٹ

معروف برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز میں شائع رپورٹ میں...