نومبر 2022 کو کرپٹوکرنسی میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد کبھی نہیں بھلا پائیں گے، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مزید بری خبریں آنے کے قوی خدشات موجود ہیں۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ڈیجیٹل کرنسی میں کاروبار کرنے والوں نے عالم خوف میں ایک بڑی کمپنی ایف ٹی ایکس کو دیوالیہ ہوتے دیکھا اور اس کے مالک سیم بنک مین فرائیڈ کو مستعفی ہوتے دیکھا۔
سیم بینک مین کو کرپٹو کنگ کا خطاب فقط 8 روز قبل ملا تھا جب انہیں ایف ٹی ایکس کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
اس واقعہ نے پوری کرپٹوکرنسی انڈسٹری میں خوف و ہراس پھیلا دیا، لوگوں نے مختلف پلیٹ فارمز سے اپنی جمع پونجی نکلوانے کے لیے دوڑ لگا دی جس کے باعث رقم نکلوانے کے آپشن کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔
یہ ایک طرح سے 1929 میں آنے والی عظیم کساد بازاری کا عکس تھا جہاں ایک پلیٹ فارم کی ناکامی نے ایسی لہروں کو جنم دیا جنہوں نے کرپٹوکرنسی کی دنیا میں ہر طرف پھیل کر دیگر پلیٹ فارمز کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا۔
اب ہر طرف یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا کرپٹوکرنسی کا شعبہ اپنے اختتام کی طرف جا رہا ہے؟
یہ سب کیسے شروع ہوا؟
نومبر 2 کو کرپٹو کے متعلق کوائن ڈیسک ویب سائیٹ پر ایک مضمون شائع ہوا جس میں ایک مالیاتی دستاویز لیک کی گئی، اس دستاویز نے ایف ٹی ایکس اور بینک مین فرائیڈ کے ٹریڈنگ ہاؤس المائدہ کے درمیان تعلق پر سوالات اٹھائے گئے۔
اگرچہ یہ دونوں الگ الگ کمپنیاں ہیں لیکن مضمون میں دعویٰ کیا گیا کہ المائدہ ریسرچ دراصل ایک ایسے کوائن کی بنیاد پر کھڑی ہے جس کو ایف ٹی ایکس کی ایک اور کمپنی نے خود ہی ایجاد کیا ہے۔
اس دوران وال سٹریٹ جرنل نے الزام عائد کیا کہ المائدہ ریسرچ نے ایف ٹی ایکس کے صارفین کا پیسہ بطور قرض استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی۔
کرپٹوکرنسی میں کاروبار کرنے والی بڑی کمپنی بائنانس نے ایف ٹی ایکس سے متعلقہ تمام کرپٹو ٹوکن تیزی سے فروخت کرنے شروع کر دیے اور اپنے 75 لاکھ صارفین کو بتایا کہ ایف ٹی ایس کے متعلق سامنے آنے والے انکشافات کی وجہ سے وہ ایسا کر رہی ہے۔
ایف ٹی ایکس کے متعلق یکے بعد دیگرے بری خبریں سامنے آنے کے بعد اس کے صارفین میں پریشانی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے کمپنی سے اربوں ڈالرز کا سرمایہ نکالنا شروع کر دیا۔
بینک مین نے کمپنی کو بچانے کے لیے پیسہ نکالنے کا عمل معطل کر دیا مگر اس سے مزید خوف پیدا ہوا، اس دوران بائنانس نے ایف ٹی ایکس کو خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر وہ بھی پیچھے ہٹ گئی۔
اس مرحلے پر نہ صرف ایف ٹی ایکس کی ساکھ ختم ہو گئی بلکہ مختلف کرپٹوکرنسی کی قدر بھی تیزی سے گرنے لگی۔
نومبر 11 کو ایف ٹی ایکس اور المائدہ نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا، بنک مین نے ٹویٹر پر اپنے طویل خط میں صارفین سے معافی مانگتے ہوئے کمپنی سے استعفیٰ کا اعلان کر دیا۔
کمپنی کو بچانے کی ناکام کوششیں
ایک ماہر جون جے بیلی تھری کو ایف ٹی ایکس کا سی ای او بنا دیا تاکہ وہ کسی طرح کمپنی کو بچانے کی کوشش کر سکیں، انہوں نے کمپنی کا حساب کتاب دیکھنے کے بعد ایک ہفتے میں اعلان کیا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی گڑبڑ کہیں نہیں دیکھی۔
انہوں نے عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں کمپنی میں پائی جانے والی بدانتظامی اور ممکنہ فراڈ کی شہادتیں شامل کیں۔
کرپٹو کرنسی کا مستقبل داؤ پر
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق گزشتہ برس بٹ کوائن 60 ہزار ڈالرز میں فروخت ہو رہا تھا، آج اس کی قیمت صرف 17 ہزار ڈالرز سے بھی نیچے آ گئی ہے۔
کرپٹو کی خرید و فروخت کرنے والی کمپنیوں کے صارفین نے تیزی سے اپنی ڈوبتی رقم نکالنے کی کوشش شروع کر دی جس کے بعد بہت سی کمپنیوں نے رقم نکالنے کا آپشن بند کر دیا۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق بلاک فائی نامی کمپنی نے اپنے زیادہ تر آپریشن روک دیے ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ بھی دیوالیہ ہونے کا اعلان کر سکتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ایف ٹی ایکس میں سرمایہ کاری کرنے والے 10 لاکھ صارفین کی رقم مکمل طور پر ڈوب چکی ہے۔
کرپٹو کا کاروبار کرنے والی معروف کمپنی بائنانس کے سی ای او چانگ پینگ ژاؤ نے ایف ٹی ایکس سے متاثر ہونے والی کمپنیوں کے لیے ریکوری فنڈ کا اعلان کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپٹوکرنسی کا موجودہ بحران کچھ عرصے تک قائم رہے گا لیکن یہ صنعت اس سے نکل آئے گی۔
سی این این میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ماضی میں اس سے ملتے جلتے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں 1990 کی دہائی میں ڈاٹ کام اور 2008 میں لی مین برادرز کے زوال سے پیدا ہونے والی معاشی بحران کے باوجود حالات پر قابو پا لیا گیا تھا۔
امریکن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ میں کام کرنے والے ماہر معاشیات پیٹ ارل کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران کی ذمہ داری کرپٹو کرنسی سے زیادہ فراڈ پر عائد ہوتی ہے، اس لیے موجودہ سکینڈل کرپٹو کر ختم نہیں کرے گا بلکہ ابھی طویل عرصے تک ڈیجیٹل کرنسی موجود رہے گی۔
اس حوالے سے ایک مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ کرپٹو کرنسی کو حکومتی سطح پر ریگولیٹ کیا جائے، اگر ایسا ہوا تو اس میں ملنے والے غیرمعمولی نفع کا خاتمہ ہو جائے گا۔