عامرضیاء
جولائی 17 کو پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین ضمنی انتخابات ہیں۔ ان انتخابات میں پاکستان کے سیاسی پہلوانوں اور ان کے پشت بانوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس سے قبل کبھی ایسا ضمنی انتخابی معرکہ دیکھنے میں نہیں آیا جس پر فقط حکومت کی تقدیر کا ہی نہیں بلکہ اس بات کا فیصلہ بھی ہونا ہے کہ مستقبل کی سیاست کس ڈگر پر چلے گی۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ ان ضمنی انتخابات کا جو بھی نتیجہ نکلے، وطنِ عزیز میں سیاسی استحکام ایک خواب ہی رہے گا، پاکستان کا سیاسی عدم استحکام اسی طرح جاری و ساری رہے گا جو بدقسمتی سے گذشتہ چند ماہ سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اس میں مزید شدت آنے کا امکان ہے۔
ان انتخابات کے نتیجے میں دو ممکنہ منظرنامے ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف 20 میں سے کم از کم 14 نشستوں پر فتحیاب ہو کرحمزہ شہباز کی متنازع وزارت اعلیٰ سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ دوسرا یہ کہ شریف خاندان کی پاکستان مسلم لیگ اس مقابلے میں پی ٹی آئی کو پیچھے چھوڑ دے۔
لیکن ان دونوں میں سے کسی بھی نتیجے کی صورت میں، پاکستان میں سیاسی محاذآرائی میں اضافہ نوشتہ دیوار ہے۔ تصور کیجئے کہ اگر عمران خان ان انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کا ہدف صرف پنجاب میں حکومت کا قیام ہی نہیں ہوگا، بلکہ وہ اس فتح کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ منظم اور بھرپور انداز میں وفاق میں شہباز شریف کی حکومت کو نشانہ بنائیں گے۔ یہ بات یقینی ہے کہ پنجاب ہاتھ سے نکل جانے کی صورت میں مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادی زیادہ دن مرکز میں حکومت نہیں چلا پائیں گے۔ اور اگر وہ اقتدار بچانے کی کوشش کریں گے تو اس سے تصادم اور انتشار کی سیاست مزید بڑھے گی اور غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوگا۔
فرض کرلیں کہ اگر نون لیگ ان انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کیا اس سے پاکستانی سیاست میں استحکام اور اعتدال آ جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ سابق وزیراعظم عمران خان تھک کر بیٹھ جانے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ان ضمنی انتخابات سے پہلے ہی انھوں نے اپنے چاہنے والوں اور حمایتیوں کو اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ وہ 20 کی 20 نشستوں پر کامیاب ہوں گے، اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ نون لیگ اور اس کے پشت بانوں نے انتخابات میں دھاندلی کی ہےنتیجتاً وہ اسی طرح اپنی احتجاجی سیاست جاری رکھیں گے۔
لیکن پاکستان اور اس کی کمزور، لڑکھڑاتی معیشت کے لیے یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ حکومت اپنی تمام تر توجہ معیشت کی بہتری اور دیگر اندرونی و بیرونی مسائل کے حل کی جانب مرکوز کر سکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں ایسی حکومت ہو جس پر پاکستانیوں کی اکثریت اعتماد کرتی ہو اور وہ تنازعات و متنازع شخصیات سے پاک ہو۔ بدقسمتی سے شہباز شریف حکومت جس طریقے سے برسراقتدار آئی، اُس پر ڈھیروں سوالیہ نشان ہیں۔ ایک ادھوری قومی اسمبلی جس میں 120 سے زیادہ اراکین بیٹھنے کے لیے تیار نہیں اسے کبھی بھی عوام کی نمائندہ اسمبلی تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس میں کی گئی قانون سازی پائیدار اور عوامی اُمنگوں کی ترجمان ہوسکتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ٹیڑھی بنیاد رکھ کر آپ کبھی بھی سیدھی دیوار نہیں چن سکتے۔ پاکستان کی سیاسی بنیاد سیدھی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ فی الفور غیرجانبدار عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ایسی غیرجانبدار حکومت جو ماہرین اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو اور جو مشکل ترین معاشی فیصلے اور دیگر اہم اصلاحات کرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کو صاف اور شفاف انتخابات کی طرف لے جاسکے، ایسا نہ ہوا تو سیاسی اختلافات اور نفرت بھری کشیدگی میں انتخابی عمل ملک میں مزید تقسیم، تنازعات اور تشدد کا باعث بن سکتا ہے جو پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ بنیاد سیدھی رکھنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اس کا آسان جواب ہے کہ یہ کا م پاکستان کے وہ ادارے مل کے کرسکتے ہیں جن کا اگلے انتخابات میں کوئی براہ راست مفاد وابستہ نہیں ہے۔ ان میں عدلیہ، فوج اور الیکشن کمیشن سب سے اہم ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شخصیات کا تو محدود ذاتی مفاد ہوسکتا ہے لیکن اداروں کا مفاد صرف مستحکم پاکستان سے وابستہ ہے۔ ارباب اختیار پاکستان کی سیاسی بنیاد کا ٹیڑھ پن دوبارہ سیدھا کرنے میں مزید کتنا وقت لیتے ہیں، پاکستانیوں کو اس کا انتظار ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کہیں یہ دیر پاکستان کے لیے اندھیر نہ بن جائے۔ بہرحال اُمید یہی کرنی چاہیے کہ پاکستان کو سیاسی بحران سے نکالنے کا فیصلہ درست ہوگا اور جلد ہوگا۔
- Advertisement -