تین برسوں میں خواتین کے قتل، زیادتی اور تشدد کے واقعات میں خوفناک اضافہ

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

3 سال کے اعدادوشمار کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں صنفی بنیادوں پر رپورٹ ہونے والے جرائم کی تعداد 63367 رہی ہے، 3987 خواتین قتل ہوئیں جبکہ 10500 کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

صرف 2019 کے دوران خواتین کے خلاف 25389 جرائم سرزد ہوئے ہیں، اسی طرح 2020 کے دوران ان واقعات کی تعداد 23789 جبکہ 2021 کے دوران 14189 رہی۔

گزشتہ 3 برسوں کے دوران خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے 643 واقعات پیش آئے جبکہ عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے 5171 واقعات رجسٹرڈ ہوئے۔

اعدادوشمار کے مطابق اسی عرصے میں غیرت کے نام پر 1025 خواتین قتل ہوئیں جبکہ تیزاب پھینکنے کے واقعات کی تعداد 103 رہی۔

اسی طرح 38 خواتین کے ساتھ چولہا پھٹنے سے جل جانے کے واقعات پیش آئے، گزشتہ 3 برسوں کے دوران 41513 خواتین کو اغوا کیا گیا۔

یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ چولہا پھٹنے سے جل جانے کے واقعات کے پیچھے گھریلو تشدد کارفرما ہوتا ہے جسے بعد ازاں حادثاتی واقعہ کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جل جانے کے واقعات کو خودکشی کی شکل دے دی جاتی ہے حالانکہ درحقیقت بہت سے ایسے واقعات میں خواتین کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے۔

خواتین اپنے سسرال کے دباؤ پر بہت بار خود بھی چولہا پھٹنے سے جل جانے کا اعتراف کر لیتی ہیں۔

جرائم کی سالانہ تفصیل

دستاویزات کے مطابق 2019 میں 1578 خواتین کو قتل کیا گیا، 4377 کے ساتھ زیادتی کی گئی، 391 کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 13916 کو اغوا کیا گیا جبکہ 260 اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں۔

اسی طرح 2020 میں 1569 خواتین قتل ہوئیں اور 3887 کو جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 397 خواتین غیرت کے نام پر قتل کی گئیں، 246 اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنیں جبکہ 12809 کا اغوا رپورٹ کیا گیا۔

گزشتہ برس 840 خواتین قتل ہوئیں، 2253 کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، 257 غیرت کے نام پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور اجتماعی زیادتی کے 137 واقعات رپورٹ ہوئے۔

2021 کے دوران 7651 عورتیں اغوا ہوئیں جبکہ تشدد کے 1134 واقعات رجسٹر ہوئے۔

- Advertisement -
مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین