اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینیٹر اعظم سواتی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد 2 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض اعظم سواتی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
سماعت کے دوران سینیٹر اعظم سواتی کے بیٹے نے روسٹرم پر آ کر اپنے والد کے خط کا معاملہ پیش کیا، انہوں نے خط کے مندرجات پڑھنے کی اجازت طلب کی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ خط عدالت کے پاس موجود ہے، اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے کرنا چاہتے ہیں، اس معاملے پر لارجر بنچ تشکیل دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس قسم کے خطوط عدالت عمومی طور پر نہیں دیکھتی، ایسے خطوط پہلے بھی موصول ہوتے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ اس معاملے پر پالیسی تشکیل دی جائے۔
اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان نے درخواست کی کہ عدالت اس معاملے کو آج ہی دیکھ لے لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہی لارجر بینچ کی تشکیل ممکن نہیں، سینئر ججز ابھی چھٹی پر ہیں آئندہ ہفتہ کے لیے لارجر بنچ تشکیل دیں گے۔
بعد ازاں بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اعظم سواتی کے بیٹے سے درخواست کی ہے، وہ یہ خط واپس لے لیتے ہیں۔
بعد ازاں اعظم سواتی کے بیٹے نے عدالت کو لکھا گیا خط واپس لے لیا جس کے بعد باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو گیا۔
بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کی ہائیکورٹس نے اعظم سواتی کے خلاف مقدمات ختم کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں نہ ہی وقت لکھا ہے اور نہ ہی وقوعہ کی جگہ لکھی ہے، ایسی ایف آئی آر کبھی نہیں دیکھی۔
انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ نام نہیں لینا چاہتے لیکن ایک سیاسی شخصیت کو بیماری پر اور دوسری شخصیت کو تیمارداری پر ضمانت دی گئی۔
بابر اعوان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے سے موقف مانگا تو ان کے وکیل نے بتایا کہ اسپیشل پراسیکیوٹر نہیں آ سکے۔
انہوں نے عدالت سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا اور دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر دیا جو بعد ازاں سنا دیا گیا۔