اس وقت جبکہ پاک فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی سیاست کا اہم ترین موضوع بنا ہوا ہے، حکومت پاکستان آرمی ایکٹ میں اہم ترمیم کرنے کا سوچ رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قانون میں اس تبدیلی کے بعد وزیراعظم ایک سادہ نوٹی فکیشن کے ذریعے فوجی افسروں کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا سکے گی۔
موجودہ سیاسی ماحول میں اس مجوزہ قانون سازی کو بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔
ایک سینئر وکیل کے مطابق قانون میں ترمیم کے بعد وزیراعظم کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ آرمی چیف یا جلد ریٹائر ہونے والے کسی بھی سینئر افسر کو مزید احکامات تک اپنا کام جاری رکھنے کا کہہ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ قانون میں فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع یا دوبارہ سے تقرری ایک خاص طریق کار کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں وزارت دفاع کے ذریعے سمری بھیجی جاتی ہے اور اس کی منظوری وزیراعظم اور ان کے بعد صدرمملکت دیتے ہیں۔
مجوزہ ترمیم کے بعد وزیراعظم ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے آرمی چیف کو کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں، اس میں مدت ملازمت کا تعین کرنا بھی ضروری نہیں ہو گا۔
پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ 6 سال بعد 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں، اسی طرح فوج کے سینئر ترین افسر لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 29 نومبر سے پہلے آ رہی ہے۔
پیر کو ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کی گئی قانون سازی کو ختم کرنے کی بات کی تھی، اسے بھی قانون میں ترمیم کرنے کا ممکنہ اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ 11 نومبر کو پاکستان آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے لیے سی سی ایل سی کی میٹنگ کوئی وجہ بتائے بغیر منسوخ کر دی گئی تھی۔
پیر کو حکومت نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور وزیرمواصلات اسد محمود کو سی سی ایل سی کا ممبر بنانے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا، اس سے قبل وزیرخزانہ اس کمیٹی کا حصہ نہیں ہوتے تھے اور وزیرقانون اس کی سربراہی کرتے تھے۔
اگر سی سی ایل سی قانون میں ترمیم کی منظوری دیتی ہے تو اسے کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
وزارت قانون کے ذرائع کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم پر غور کے لیے ایک ہفتے کے اندر میٹنگ متوقع ہے۔