جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2016 میں آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا تو ان کا آغاز بہت ہی شاندار تھا لیکن چھ سال بعد پاکستان اور اس کے طاقتور ادارے پاک فوج کو بہت بڑے چینلجز کا سامنا ہے۔
یہ بات سینئر صحافی عامر ضیاء نے نیریٹوز میگزین کے اگست کے شمارے میں تحریر کردہ آرٹیکل میں کہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج ملک میں ایسی غیرمقبول حکومت ہے جس کا حق حکمرانی متنازع ہے اور ایک نامکمل قومی اسمبلی موجود ہے جس کی وجہ سے پاکستان 2016 کی نسبت سیاسی طور پر زیادہ منقسم ہے۔
عامر ضیا مزید لکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن سے لے کر اعلیٰ عدلیہ اور پھر پاک فوج، یہ تمام ادارے کسی نہ کسی سطح پر متنازع بن چکے ہیں، ایسی صورتحال میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بالخصوص اور باقی ملک میں بالعموم دہشت گردی کا عفریت سر اٹھانے لگا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ان حالات میں ایک بڑا چیلنج پاک فوج کے سامنے ہے اور وہ چیلنج تنازعات کی دلدل سے خود کو نکال کر دوبارہ اپنی مقبولیت قائم کرنا ہے۔ مقبولیت کا گراف حالیہ مہینوں میں اس وقت سے نیچے آیا ہے جب عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا گیا تھا۔
لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شعیب امجد نے ان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کئی سینئر کمانڈرز کی موجودگی میں انہیں کہا تھا کہ وہ ملازمت میں کسی قسم کی توسیع نہیں لیں گے اور نومبر کے آخر میں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر چلے جائیں گے۔
یاد رہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائرکٹر جنرل بابر افتخار جنوری 2022 میں ایک پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ملازمت میں کسی قسم کی توسیع قبول نہیں کریں گے۔
عامر ضیا کے مطابق کئی سینئر دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کے لیے ایک بڑا چیلنج معاشرے میں در آنے والی اس تقسیم سے نمٹنا ہو گا جو پاک فوج کو مختلف انداز میں متاثر کر رہی ہے۔
جنرل شعیب نے ان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خوش قسمتی سے پاک فوج مکمل طور پر منظم ادارہ ہے جس میں کمان کی اطاعت بنیادی قدر سمجھی جاتی ہے۔
عامر ضیا کے مطابق کئی دفاعی ماہرین اس امر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ متنازع سیاسی قیادت کی جانب محلاتی سازشوں کے ذریعے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے باعث پاک فوج کی صفوں میں بے چینی موجود ہے۔
ایک ریٹائرڈ جنرل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہیں بتایا کہ نئے آرمی چیف کے لیے اپنے ادارے اور عوام کے درمیان توازن قائم کرنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ اس کے لیے انہیں تیزی سے جنرل باجوہ کے بعض اقدامات سے دوری اختیار کرنی ہو گی۔
لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں پاک فوج کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، جنرل باجوہ کو براہ راست نشانہ بنانا نہ ہی ملک کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی پاک فوج کے لیے۔ نئے آرمی چیف کو دیکھنا ہو گا کہ وہ عوامی سطح پر ادارے کا تاثر کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
عامر ضیا کے مطابق سابق فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ فوج کی طاقت کا منبع اس کی صفوں میں اتحاد ہے، یہ ادارہ ایک خاندان کی طرح کام کرتا ہے جس کا اپنے سربراہ پر کامل اعتماد ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ جب 2016 میں جنرل راحیل شریف ریٹائرڈ ہوئے تو پاک فوج اپنی عوامی مقبولیت کے عروج پر تھی، اس ادارے نے 2014 میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب میں فیصلہ کن فتوحات حاصل کی تھیں۔
عامر ضیا کے مطابق اس وقت پاک فوج کا ادارہ اقتدار کے ایوانوں میں موجود بعض سیاست دانوں کی لالچ، بدعنوانی اور موقع پرستی کے خلاف ایک مضبوط دیوار سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح نوازحکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کی کاوشوں کے باوجود پاک فوج نے اس معاملے میں کسی بھی کمزوری کا اظہار نہیں کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے بھی فروری 2017 میں آپریشن ردالفساد کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی ان کوششوں کو مزید آگے بڑھایا جن کا آغاز ضرب عضب سے ہوا تھا۔
عامر ضیا اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ پانامہ کیس کے موقع پر جنرل باجوہ کی قیادت میں پاک فوج نے اپنا پلڑا سپریم کورٹ کے حق میں ڈال ادارے کے امیج کو مزید تقویت دی۔ 2018 کے انتخابی نتائج نے فوج کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیے۔
ان کے مطابق فوجی اور سیاسی قیادت کے ایک صفحے پر ہونے کو اس وقت کی حزب اختلاف نے ہابرڈ رجیم کا نام دیا تاکہ عمران خان کی حکومت کو ہدف تنقید بنایا جا سکے لیکن رائے عامہ نے اپوزیشن کے بیانیے کو تسلیم نہ کیا کیونکہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوامی اور عسکری قیادت ایک ہی طرح سوچ رہی تھی جو ملکی استحکام کے لیے بہت ضروری امر تھا۔
عامر ضیا مزید لکھتے ہیں کہ 2021 کے اواخر میں اس ہم آہنگی میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں جب آئی ایس آئی چیف کی تقرری کے معاملے پر سیاسی و عسکری قیادت میں اختلاف پیدا ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں قیادتیں ظاہری طور پر ہم آہنگی کا تاثر قائم رکھنے میں کامیاب ہوئیں تاہم جب اپریل میں عمران خان کو ہٹا کر میگا کرپشن کے اسکینڈلز میں لتھڑی ہوئی قیادت تخت اقتدار پر براجمان ہوئی تو اس کی چہارسو مذمت کی گئی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اگرچہ لبرل اور قوم پرست قوتوں کے محدود حلقے پاک فوج کے غیرجانبدار ہونے کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن عام پاکستانیوں کے لیے یہ ایک قدم پیچھے ہٹنے کے مترادف تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایتیوں کے لیے یہ تبدیلی ملک کو بدعنوان سیاست دانوں اور ان کے خاندانوں کے سپرد کر دینے کے برابر تھی۔
جنرل غلام مصطفیٰ نے عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی فوج کے لیے دو باتیں بہت اہم ہیں، ایک جوانوں کا اپنے سربراہ پر اعتماد اور دوسرا ادارے کا عوام سے مضبوط رشتہ۔
انہوں نے 1965 کی جنگ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس بڑے چیلنج کے وقت عوام سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے اور اسی عوامی حمایت کے سبب ایک طاقتور دشمن کے دانت کھٹے کرنے میں کامیابی ملی تھی۔
جنرل غلام مصطفیٰ نے مزید کہا کہ اگر قیادت پر اعتماد کمزور پڑ جائے تب بھی افسر اور جوان احکامات کی پیروی کریں گے لیکن ان کے جوش و جذبے کا معیار کمتر ہو گا۔
عامر ضیاء کے مطابق ایک اور سابق آرمی جنرل نے انہیں کہا کہ جس طرح حالیہ دور میں پاک فوج اور اس کی قیادت کو متنازع بنا دیا گیا، ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر کسی کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا سے درست اور غلط معلومات عوام تک پہنچتی ہیں، اس وجہ سے قیادت پر اعتماد کی بحالی نئے آرمی چیف کی سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیئے۔
جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب نے اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان موجودہ حکومت کا حصہ ہیں اور وہ قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا کے ساتھ ادغام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تحریک طالبان پاکستان کا بھی یہی مطالبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمان کی بات مان لی گئی تو اسے ٹی ٹی پی کا مطالبہ تسلیم کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا جس کے نتیجے میں گزشتہ 14، 15 برسوں کی محنت پر سیاسی مصلحتوں کے تحت پانی پھیر دیا جائے گا اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔
عامر ضیاء کے مطابق ایک اور جنرل نے کہا کہ نئے آرمی چیف کو کشمیر اور بھارت سے تعلقات کے معاملے پر اپنے جوانوں اور عوام کے جذبات کو مدنظر رکھنا ہو گا کیونکہ اس وقت کشمیر پر پالیسی تبدیل ہونے کا تاثر مل رہا ہے جسے امریکی دباؤ کا شاخسانہ سمجھا جا رہا ہے جو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے پر زور دے رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی میں اس تبدیلی کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہو گی اور اس سے پاکستانی کے بنیادی مفادات کو زک پہنچے گی۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے تصور کو رد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک بھارت 5 اگست 2019 کے اقدامات کو منسوخ نہیں کرتا، اس وقت تک تعلقات کا بحال ہونا ممکن نہیں ہے۔
عامر ضیا آخر میں لکھتے ہیں کہ بڑی سطح کی بدعنوانی کرنے والے سیاست دانوں کو اقتدار میں واپس آنے کی اجازت دی گئی جس نے پاکستان کے تفتیشی اور قانونی عمل کے ساتھ ساتھ نظام عدل پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جنرل غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ اگرچہ فوج کو سیاسی معاملات سے فاصلہ کرنا چاہیئے لیکن یہ عمل ایک دم سے کرنے سے ایک خلا پیدا ہو گا جس سے متنازع قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کی جگہ مل سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ فقط عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے پر غم و غصے کا شکار نہیں ہیں بلکہ انہیں یہ دکھ ہے کہ بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے سیاست دانوں کو ایوان اقتدار میں واپسی کا موقع ملا گیا ہے۔
عامر ضیا آخر میں لکھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات میں پاک فوج کے نئے سربراہ کے سامنے انتہائی مشکل ایجنڈا ہو گا جو خود ان کے لیے اور ان کے ادارے کے لیے ایک بڑا امتحان ہو گا۔
- Advertisement -