پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالرز قرض کے پروگرام پر رسمی بات چیت ایک مرتبہ پھر تاخیر کا شکار ہو گئی ہے۔
یہ مذاکرات اکتوبر کے آخری ہفتے ہونے تھے لیکن پھر انہیں 3 نومبر تک موخر کیا گیا، تاہم ابھی تک مذاکرات نہیں ہوسکے اور ان میں تاخیر ابھی تک جاری ہے۔
تاخیر کی وجوہات میں سیلاب سے متعلقہ مالی ضروریات کا غیرواضح ہونا اور درآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے محاصل میں ہونے والی کمی بتائی جا رہی ہے۔
جمعرات کو وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے ساتھ آن لائن میٹنگ کی تھی تاہم مذاکرات کے لیے تاریخ کا تعین نہیں ہو سکا۔
وزارت خزانہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق فریقین نے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت پر بات کی، اس میں سیلاب کے باعث میکرواکنامک فریم ورک اور رواں مالی سال کے اہداف پر گفتگو کی گئی۔
آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے تکنیکی سطح پر مالی اور مالیاتی اعدادوشمار پر اتفاق رائے ہوتا ہے تاکہ پالیسی سطح پر چھوٹی موٹی درستگیاں کی جائیں اور بعد ازاں اسے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے پاس منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
معروف معاشی تجزیہ کار شہباز رانا کے مطابق حکومت نے سیلاب کے بعد بحالی کے لیے جو تخمینہ لگایا تھا، آئی ایم ایف اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے اگلے دو ہفتوں کے دوران اپنا مشن نہ بھیجا تو قرض کی اگلی قسط جنوری سے پہلے نہیں مل سکے گی۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران چند پالیسی ایکشنز میں تاخیر ہوئی ہے جن کا تعلق موجودہ سیاسی بے یقینی اور محاصل میں ہونے والی کمی سے ہے۔
آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ پاکستان ٹیکس کی جی ڈی پی سے شرح 11 فیصد تک لے جائے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ سیلاب کے باعث آئی ایم سے کارکردگی میں کچھ آسانیوں کی درخواست کر رہے ہیں۔
خزانہ کی سٹیٹ منسٹر ڈاکٹر عائشہ غوث بخش نے حالیہ دنوں میں پالیمنٹری پینل کو بتایا تھا کہ حالات خراب ہیں لیکن ہمارے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا لازم ہے۔
پاکستان جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کے ہدف سے 0.8 فیصد پیچھے ہے جبکہ دوسری جانب جولائی سے ستمبر کے دوران اخراجات ہدف سے بڑھ چکے ہیں اور درآمدات پر قدغنوں کی وجہ سے محصولات میں کمی واقع ہوئی ہے۔