جنوری کے مہینے میں سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی ترسیلات زر 32 ماہ کی کمترین سطح پر پہنچ گئیں۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جنوری میں ترسیلات زر دو ارب ڈالر سے بھی کم ہو کر 1.89 ارب ڈالر ہو گئی ہیں، گزشتہ سال جنوری کے مقابلے میں یہ 13 فیصد کم ہیں جبکہ دسمبر کے مقابلے میں ترسیلات زر میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
بیرون ملک سے آنے والی رقوم کی کمی کے باعث حکومت کا غیرملکی قرضوں پر انحصار بڑھ گیا ہے جو پہلے ہی پاکستان کے لیے بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔
رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ (جولائی 2022 سے جنوری 2023) کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 16 ارب ڈالر کی رقم بھیجی جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 18 ارب ڈالر تھی۔
جنوری کے دوران سب سے زیادہ رقوم، 407.6 ملین ڈالر، سعودی عرب سے آئیں جبکہ متحدہ عرب امارات سے 269.2 ملین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔
اس کے علاوہ برطانیہ سے مجموعی طور پر 330.4 ملین ڈالر اور امریکہ سے 213.9 ملین ڈالر کی ترسیلات زر بھیجی گئیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں بڑی کمی کے بعد ترسیلات زر میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ایک بار پھر بینکوں کے ذریعے رقوم بھیجنا شروع کر دیں گے۔
اس کے علاوہ تاریخی طور پر بلند افراط زر اور ماہ رمضان کی آمد قریب ہونے کی وجہ سے بھی ترسیلات زر میں اضافے کا امکان ہے، ماضی کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رمضان المبارک اور عیدین کے دوران ترسیلات زر بڑھ جاتی ہیں۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران حکومت نے ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور پر کم رکھا جس کی وجہ سے سمندرپار پاکستانیوں نے بینکوں کے بجائے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنا شروع کر دی تھیں۔
اب ڈالر کی قدر کو مارکیٹ پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے باعث حکومت کو امید ہے کہ ایک بار پھر یہ رقوم بینکوں کے ذریعے بھیجی جائیں گی جس سے ڈالر کے لیے ترستے زرمبادلہ کے ذخائر کو کچھ سہارا ملے گا۔