پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے بینچ مارک انڈیکس نے رواں مالی سال کی تیسری سہہ ماہی( جنوری تا مارچ) میں 21 فیصد منفی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جس کے بعد اس کا شمار عالمی سطح پر بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے حصص بازار میں شامل ہوگیا ہے۔
ٹاپ لائن سیکیورٹی کے ماہرین کا اس بابت کہنا ہے کہ یہ گراوٹ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں بیس فیصد کمی کے بعد ہوئی حالانکہ کے ایس ای 100 انڈیکس گزشتہ تین ماہ میں صرف ایک فیصد گرا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسری سہہ ماہی میں معاشی اور سیاسی مسائل، بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے( ایس ایل اے) میں تاخیرنے مارکیٹ کو متاثر کیا۔
ٹاپ لائن سیکیورٹی کے مذکورہ اہل کار نے مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی بلومبرگ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں میں پاکستان کے بعد نیروبی( منفی 18 فیصد)، ترکی (منفی 12 فیصد) اور زمیبیا( منفی 10 فیصد) پر رہیں۔
بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اسٹاک ایکسچینج میں لاؤس (48 فیصد)، لبنان (33 فیصد) اور سری لنکا (23 فیصد) پر تھا۔ 2023ء کی پہلی سہ ماہی میں، کیش مارکیٹ میں اوسط تجارت کا حجم سال بہ سال 25 فیصد اور سہ ماہی کے لحاظ سے 21 فیصد کم ہو کر 173 ملین شیئرز یومیہ رہ گیا۔
سالانہ بنیادوں پر اوسط تجارت کی قدر میں 10 فیصد کمی ہوئی لیکن اسی مدت میں سہ ماہی بنیادوں پر 3 فیصداضافے کے ساتھ ساڑھے 6 ارب ڈالر یومیہ ہوگئی۔
مستقبل کے سودوں میں بھی اوسط حجم سال بہ سال 27فیصڈ اور 11فیصد سے سہ ماہی بہ سہ ماہی کم ہو کر 73 حصص یومیہ ہوگیا۔
مالی سال کی تیسری سہہ ماہی میں غیر ملکی کارپوریٹس ادارے منڈی کے اہم خریدار رہے اور اس مد میں 9 ملین ڈالر کی نیٹ خریداری کی گئی۔ گزشتہ سات سالوں ( 2016ء تا 2022ء ) میں غیر ملکی کارپوریٹس نے نیٹ بیسز پر ڈھائی ارب ڈالر کے حصص فروخت کیے ہیں۔
مقامی مارکیٹ کی بات کی جائے تو اس سہہ ماہی میں میوچل فنڈز سب سے زیادہ فروخت ہوئے، اور ان کی نیٹ فروخت 46 ملین ڈالر رہی، دوسرے نمبر پر انشورینس کمپنیاں رہیں اور انہوں نے اس مدت میں 73 ملین ڈالر کی نیٹ سیل کی۔