عالمی قرض دہندہ ادارے آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی نئی فیول سبسڈی اسکیم (ایندھن پر زرِ اعانت) پر تحفظات کا اظہار کردیا۔ اس حکومتی اقدام کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے 6 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے نویں جائزے کو حتمی شکل دینے کے امکانات تاریک ہوگئے۔
اس ضمن میں یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب حکومت نے پیٹرول پر اربوں روپے کی زرِ اعانے کے ساتھ ساتھ آٹے پر بھی 73 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا، معاشی ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر یہ حکومتی اقدام آئی ایم ایف پروگرام کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف ہوگا۔
اپنے معاشی معاملات کو درست کرنے کے بجائے حکومت نے موٹر سائیکل سواروں اور 800 سی سی تک کی کار رکھنے والے افراد کے پیٹرول پر 50 روپے فی لیٹر تک سبسڈی دینے کا اعلان کیا۔ اور یہ معاملہ صرف یہی تک محدود نہیں رہا بلکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا نے بھی مجموعی طور پر آٹے پر 73 ارب روپے تک زرِ اعانت فراہم کرنے کا اعلان کیا۔
اس بابت وزارت خزانہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے وزیر اعظم کی پیٹرول اسکیم کے لیے سرمایہ کاری کا منبع جاننے کے لیے انکوائری شروع کردی ہے۔ جب کہ عالمی قرض دہندہ ایجنسی نے اس نئے سبسڈی پروگرام کی تکیمل کے طریقہ کر کے بارے میں بھی حکومت سے استفسار کیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبون سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے اس نئی فیول سبسڈی کا اعلان کرنے سے قبل ہم سے کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں کی۔
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پروگرام کے آپریشنز، لاگت، اہداف اور اس میں ہونے والی مالیاتی ہیر پھیر اور ممکنہ فراڈ کے حوالے جانچ کررہے ہیں۔جس کے بعد اپنے تحفظات حکام کے سامنے پیش کریں گے۔
ایستھر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ” عمومی طور پر ہم سماجی امداد کے لیے مستحق افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ دی جانے والی مالی معاونت کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں اور یہ پاکستان میں ضرورت مند افراد کی براہ راست مدد کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت 20 ملین سے زائد موٹر سائیکل، رکشوں اور 1 اعشاریہ 3 ملین 800 سی سی تک کی گاڑیوں کے مالکان کو پیٹرول پر فی لیٹر 50 روپے کمی کی رعایت فراہم کرنے کی مںصوبہ بندی کر رہی ہے۔
جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف دگرگوں معاشی حالات کے باوجود طبقہ اشرافیہ کو نوازنے میں مصروف ہیں۔ وہ امیر ترین کمرشل بینکوں کے ٹیکس معاف کرنا چاہتے ہیں اور گزشتہ سال ستمبر میں انہوں نے تاجروں پر لاگو 3 ہزار ماہانہ کا ٹیکس بھی ختم کردیا تھا۔ لیکن دوسری جانب وہ سیاسی اسکیم کے لیے 1 ہزار سی سی کار رکھنے والے متوسط آمدن والے افراد کو متمول سمجھتے ہوئے ان کو سزا دینا چاہتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر حکومتی وضاحت اس اقدام پر آئی ایم ایف کو مطمئن نہیں کرسکی تو آئی ایم ایف پروگرام خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے آزمائے گئے متعدد سیاسی حربوں کی وجہ سے 6 ارب ڈالر کے اضافی قرضے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے ابتدائی معاہدے کی کامیابی کے امکانات پہلے ہی کم ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما کا اس بارے میں کہنا ہے کہ کراس فیول سبسڈی حکومت کے لیے دو دھاری تلوار ہے۔
گندم کے آٹے پر سبسڈی
وزیراعظم کی ہدایت پر دونوں صوبوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں گندم کے آٹے کی مفت فراہمی اسکیم بھی شروع کی ہے۔جس کی مجموعی لاگت 73 ارب روپے ماہانہ ہوگی۔
اس میں سے سے 53 ارب روپے کی رقم پنجاب میں اور خیبر پختونخوا میں مزید 19 اب درکار ہوں گے۔ اور یہ ایک ایسے صوبے کا حال ہے جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہونے کی وجہ سے سبسڈی دینے کا متحمل نہیں ہے۔
وزارت خزانہ کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ گندم پر سبسڈی کی مد میں 73 ارب روپے ماہانہ کے آئی ایم ایف کے ساتھ حال ہی میں طے پانے والے مالیاتی فریم ورک کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے کہا کہ 73 ارب روپے کے اخراجات آئی ایم ایف کے ساتھ حال ہی میں طے شدہ مالیاتی فریم ورک کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں، جس کے لیے 559 ارب روپے صوبائی کیش سرپلسز کی ضرورت ہے۔
اور گزشتہ ماہ ہی آئی ایم ایف کے ساتھ 559 ارب روپے کیش سرپلس کی بنیاد پر 465 ارب روپے یا 0اعشاریہ 5 فیصد بنیادی بجٹ خسارے کا ہدف طے پایا تھا۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کے پی نے وزیر اعظم کو آگاہ کردیا تھا کہ صوبے کے 57 لاکھ خاندانوں کو مفت گندم فراہم کرنے کی اسکیم کے لیے 19 ارب روپے کے فنڈز نہیں ہیں۔ اس وقت صوبائی حکومت گندم کے آٹے کی سبسڈی کی مد میں تقریباً 30 ارب روپے ماہانہ خراچ برداشت کرتی ہے۔