عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کے پہلے روز ہی حکومت نے شرائط پر عمل شروع کر دیا ہے جس کے بعد مہنگائی کا ایک اور طوفان جنم لے گا۔
ایل پی جی کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 6 روپے یا اس سے زیادہ کے اضافے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
بجلی کے فی یونٹ نرخ میں یہ اضافہ اگست تک کے لیے کیا جائے گا اور کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے 6 روپے جبکہ اس سے زائد استعمال پر مزید فی یونٹ قیمت لاگو ہو گی۔
اس سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 16 فیصد تک کا اضافہ کیا جا چکا ہے جبکہ مرکزی بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کر دیا تھا، روپے کی قدر کو مارکیٹ پر چھوڑ دینے کی شرط پر بھی عمل کیا جا چکا ہے۔
آئی ایم ایف کے مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر دو سے ڈھائی کھرب روپے کے مالیاتی فرق کو پر کرنے کی شرط پر ڈٹے ہوئے ہیں.
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مذاکرات کے متعلق جانکاری رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے مشن کا دوٹوک پیغام یہ تھا کہ حکومت کے پاس شرائط پر عمل درآمد کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے وزیرخزانہ اسحاق ڈار، وزیرتوانائی خرم دستگیر خان، وزیرمملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، وزیراعظم کے مشیر خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ اور مشیر خصوصی برائے و محصولات طارق محمود پاشا، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد، سیکرٹری فنانس حامد یعقوب شیخ اور ایف بی آر کے چئیرمین عاصم احمد سمیت دیگر عہدیداران نے شرکت کی۔
فریقین جمعہ تک تکنیکی سطح پر بات چیت کریں گے جس کے بعد پالیسی کی سطح پر مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
وزارت خزانہ اور توانائی نے پہلے ہی 2.253 کھرب روپے کے گردشی قرضوں کے متعلق ایک منصوبہ مکمل کر لیا ہے جس کے مطابق حکومت 952 ارب روپے کے قرض کی ادائیگی کا انتظام موجودہ مالی سال کے دوران کرے گی، اس میں 675 ارب روپے کی اضافی سبسڈیز بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ 2000 ارب روپے کے اضافی فنڈز کا بوجھ صارفین پر ڈالا جائے گا، اس کے لیے مختلف مراحل میں بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے تحت فروری اور مارچ کے دوران حکومت بجلی کے نرخ میں فی یونٹ 3.21 روپے، مارچ سے مئی کے دوران 70 پیسہ فی یونٹ اور جون سے اگست کے دوران 1.64 روپے فی یونٹ اضافہ کرے گی جس سے اگست تک 60 ارب روپے کی اضافی رقم وصول ہوگی۔
اس کے علاوہ صارفین سے 90 ارب روپے کی رقم فیول چارجز اور پاور ہولڈنگ کمپنی کے قرضوں پر سود کی مد میں وصول کی جائے گی۔