پاکستان کے سکوک بانڈز کی انشورنس (سی ڈی ایس) کی شرح ایک ہی دن میں 56.2 فیصد سے 75.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو ملک کے دیوالیہ ہونے کے بڑھتے خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔
پاکستان نے 5 دسمبر کو سکوک بانڈز کی 5 سالہ مدت مکمل ہونے پر ایک ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے۔ وزیرخزانہ بارہا اس بات کی یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ یہ ادائیگی وقت پر کر دی جائے گی لیکن بین الاقوامی مارکیٹ میں اس پر یقین نہیں کیا جا رہا۔
اس کی وجہ حکومت کی مزید قرض لینے کی کوششیں ہیں جو وہ مارکیٹس، ڈونرز، تجارتی بنکس اور دوست ممالک سے کر رہا ہے۔
سی ڈی ایس کی شرح میں تیزی سے اضافہ سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے مارکیٹ سے بانڈز یا تجارتی قرضوں کا حصول مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مارچ میں سی ڈی ایس 5 فیصد سے بھی کم تھا جسے پی ڈی ایم حکومت نے اپنی ناتجربہ کاری کے باعث 75 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اس کی وجوہات میں ملک میں سیاسی بحران اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں غیریقینی شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف سے مذاکرات نومبر کے ابتدائی دنوں میں ہونے تھے مگر انہیں اس ماہ کے تیسرے ہفتے تک موخر کر دیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق مذاکرات اس وقت ہوسکیں گے جب پاکستان پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانے سمیت دیگر وعدے پورے کرے گا جو قرض کے نظرثانی شدہ معاہدے کا حصہ ہیں۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں تاخیر کی وجہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے متعلق عالمی بنک کی جاری کردہ رپورٹ بنی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کو موجودہ مالی سال کے دوران 32 سے 34 ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے، ماہرین کے مطابق ان ادائیگیوں کے لیے ابھی بھی مزید 23 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔
پاکستان اب تک آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے جس کی وجہ سے اسے عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بنک سے قرض مل سکتا ہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ رواں مالی سال کے دوران مالیاتی خسارہ 1500 ارب روپے کم کرے گا لیکن پہلی سہ ماہی کے دوران یہ خسارہ مزید بڑھ چکا ہے جس سے صورتحال خراب تر ہو رہی ہے۔
آئی ایم ایف اس خسارے کو کم کرنے کے لیے مزید ٹیکسوں پر زور دے رہا ہے جو حکومت کے لیے لڑکھڑاتی معیشت اور سیاسی بے چینی کے باعث بہت مشکل کام ہے۔
پاکستان کو رواں مالی سال 8000 ارب روپے کے محصولات جمع کرنے ہیں جن کا حصول مزید ٹیکس لگائے بغیر ممکن نہیں۔