بڑھتی معاشی مشکلات کے باعث حکومت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 7 ارب ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکج لینے کے لیے سرگرم ہو گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم نے اس حوالے سے امریکہ، چین اور برطانیہ کے سفیروں سے مسلسل ملاقاتیں کی ہیں۔
آئی ایم ایف میں امریکہ کے 16.5 فیصد ووٹ ہیں جبکہ چین کے 6.08 اور برطانیہ کے 4.03 فیصد ووٹ ہیں۔ اسحاق ڈار نے ان تینوں ممالک کے سفیروں کو ملک کو درپیش معاشی مسائل کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔
ان ممالک کے سفیروں کو یقین دلایا گیا کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے لیے پرعزم ہے اور معاشی ایمرجنسی کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ اور سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے 6 دسمبر کو امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم، چینی سفیر نونگ رونگ اور برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، اس کے علاوہ انہوں نے یواین ڈی پی کنسلسٹنٹ سر مائیکل باربر سے بھی ملاقات کی۔
جاپان، جرمنی اور فرانس کے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں بالترتیب 6.14، 5.31 اور 4.03 فیصد ووٹس ہیں۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ان ملاقاتوں میں اس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی کہ جو ان کے ٹی وی انٹرویوز سے سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے آئی ایم ایف پر تنقید کرتے ہوئے اس کے رویے کو ابنارمل کہا تھا۔
معاشی ایمرجنسی کی سختی سے تردید
وزارت خزانہ نے سوشل میڈیا پر پھیلی ان افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے کہ حکومت ملک میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ کرنے جا رہی ہے۔
وزارت خزانہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ان افواہوں کا مقصد ملک کی معاشی صورتحال کے متعلق غیریقینی پیدا کرنا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ معیشت کی حالیہ مشکل صورتحال کی وجوہات بیرونی ہیں جن میں کموڈٹی سپر سائیکل، روس یوکرین جنگ، عالمی کساد بازاری اور فیڈرل ریزرو کی جانب سے پالیسی ریٹ کا بڑھانا شامل ہیں۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت غیرضروری اخراجات ختم کرنے اور توانائی بچانے کے لیے اقدامات پر غور کر رہی ہے تاکہ درآمدی بل کو کم کیا جا سکے۔