وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اپنے مختصر ویڈیو پیغام میں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں 30 نومبر تک توسیع کردی ہے۔
یہ فیصلہ انکم ٹیکس گوشواروں کی تعداد میں 34 فیصد کی نمایاں کمی کے بعد کیا گیا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو گزشتہ سال جمع کرائے گئے گوشواروں کے مقابلے میں 13 لاکھ گوشوارے کم موصول ہوئے ہیں۔
2021 میں ٹیکس گوشواروں کی تعداد 38 لاکھ رہی تھی جبکہ رواں برس ان کی تعداد 25 لاکھ سے کم رہی ہے، اس کمی کے باعث حکومت کو ٹیکس بنیاد وسیع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 3 ماہ میں ایف بی آر نے 1.84 کھرب روپے کے محصولات اکٹھے کیے ہیں تاہم معیشت میں سست روی کے باعث آنے والے مہینوں میں محصولات کا ہدف پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
درآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے ایف بی آر نے اکتوبر کے لیے وصولی کے ہدف میں بھی 17 فیصد کمی کر دی ہے۔ ہدف میں یہ کمی 88 ارب روپے کے برابر ہے۔
پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو تاجروں کی شمولیت کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں 7 لاکھ کا اضافہ کرنے کی یقین دہائی کرا رکھی ہے۔ اس یقین دہائی کے برعکس جمع کرائے گئے گوشواروں کی تعداد میں 13 لاکھ کمی واقع ہوئی ہے۔
مجموعی طور پر ایف بی آر کو اپنے ہدف کے مقابلے میں 20 لاکھ گوشوارے کم موصول ہوئے ہیں۔
گزشتہ ماہ اسحاق ڈار نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں ایک ماہ کا اضافہ کیا تھا لیکن مہینے کے آخر میں صرف 6 لاکھ 50 ہزار گوشوارے جمع کرائے گئے۔
ایکسپریس ٹریبون کے رپورٹر شہباز رانا کے مطابق اپنی مقبولیت کم ہونے کے خدشے کے باعث حکومت انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے شہریوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گھبرا رہی ہے۔
ڈان اخبار کے مطابق اکتوبر میں ٹیکس وصولی کا ہدف 600 ارب روپے رکھا گیا تھا تاہم یہ وصولی 512 ارب روپے رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس میں محصولات کے اعدادوشمار کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ ایف بی آر نے بھی اب تک کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی۔
ایف بی آر حکام کے مطابق جولائی سے اکتوبر کے درمیان محصولات کا ہدف 2.143 کھرب روپے طے کیا گیا تھا جبکہ اس عرصے میں 2.148 ارب روپے وصول ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں ٹیکس کی وصولی 16 فیصد یا 305 ارب روپے بڑھی ہے لیکن 23 فیصد افراط زر کے حساب سے کافی کم ہے۔
رواں مالی سال کے دوران ٹیکس حکام نے 7.470 کھرب روپے کے ٹیکس کا ہدف طے کیا ہوا ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔
موجودہ بجٹ میں حکومت نے پیٹرولیم لیوی، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں ایک کھرب روپے کے اضافی ٹیکس بھی عائد کیے تھے اس کے باوجود 4 ماہ کے دوران ہدف سے بہت کم محصولات اکٹھے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں آئی ایم ایف نے حکومت کو 600 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کرنے کو کہا ہے تاکہ ایف بی آر کا جی ڈی پی میں ٹیکس کا تناسب 9.5 فیصد کیا جا سکے۔
محصولات میں ممکنہ کمی کے باعث آنے والے مہینوں میں حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حکومتی محصولات میں کسٹم ڈیوٹی کا حصہ بہت نمایاں ہوا کرتا ہے تاہم مسلسل چوتھے ماہ اس میں بھی ہدف سے کم محصولات نمایاں رہے ہیں۔
چار ماہ کے 343 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں حکومت کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 306 ارب روپے ہی حاصل کر پائی ہے۔
اس کمی کی بنیادی وجہ درآمدات پر عائد پابندیاں ہیں جس کے باعث پاکستانی روپے میں محصولات میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں انکم ٹیکس کی مد میں 886 ارب روپے جمع کیے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 41 فیصد یا 259 ارب روپے زیادہ ہیں۔
اسی طرح سیلز ٹیکس کی مد میں 854 ارب روپے اکٹھے کیے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں صرف 2.7 فیصد یا 28 ارب روپے زیادہ ہیں۔