پاکستان کے معروف صحافی ارشد شریف کا قتل مسلسل بین الاقوامی میڈیا میں زیربحث ہے اور اس پر روزانہ کی بنیاد پر خبریں شائع ہو رہی ہیں۔
اس سانحہ کے فوری بعد عالمی جریدوں میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا، تقریباً تمام اخبارات میں کینیا کی پولیس کی بیان کردہ کہانی کو مشکوک قرار دیا گیا۔
برطانیہ کے معروف جریدے دی گارڈین نے 24 اکتوبر کو اپنی خبر میں لکھا کہ ارشد شریف کے قتل کے متعلق تجزیہ کاروں، سیاست دانوں اور صحافیوں کی جانب سے شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اخبار کے مطابق ارشد شریف موجودہ حکومت کے شدید ناقد تھے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں جن کی وجہ سے انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔
الجزیرہ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ ارشد شریف کو اس وقت ملک چھوڑنا پڑا جب ان کے خلاف غداری کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔
کینیا میں الجزیرہ کی نمائندہ کیتھرین سوئی کا کہنا تھا کہ یہ بات غیرواضح ہے کہ پولیس کس طرح دو ایسی گاڑیوں میں غلط فہمی کا شکار ہوئی جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔
امریکی جریدے سیٹل ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ارشد شریف کے ملک چھوڑنے کی وجہ وہ مقدمات تھے جن میں ان پر قومی اداروں کو بدنام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
افریقہ کے اخبار دی ایسٹ افریقن نے لکھا کہ ارشد شریف غداری کے مقدمات درج ہونے کے بعد ملک سے چلے گئے تھے اور اپنی جان بچانے کے لیے روپوش تھے۔
افریقہ کے ایک اور اخبار نیشن نے ارشد شریف کی موت کو پراسرار قرار دیتے ہوئے لکھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اس سانحہ کو قتل قرار دیا ہے۔
معروف جریدے گرین وچ ٹائمز نے بھی اپنی خبر میں ارشد شریف کو جان سے مار دینے کی دھمکیوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان دھمکیوں کے باعث انہیں ملک چھوڑنا پڑا تھا۔
سی این این نے ارشد شریف کے قتل پر اپنی رپورٹ میں شہبازگل کے ساتھ ہونے والے انٹرویو اور اس کے نتیجے میں ان پر درج ہونے والے مقدمات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔
نیروبی ٹائمز نے اپنی خبر میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کا تذکرہ کیا جس نے کینیا کی پولیس کی رپورٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کو پراسرار قرار دینے کی خبر زیادہ اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ترجمان سٹیفن ڈجارک نے اپنے بیان میں کینیا کی حکومت کی جانب سے اس سانحہ کی تفصیلی تحقیقات کی امید ظاہر کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ تحقیقات کے نتائج کو فوری طور پر سامنے لایا جائے۔