بجلی کی اضافی پیداواری صلاحیت: 2030 تک صارفین پر ایک ارب 16 کروڑ روپے کا بوجھ پڑنے کا امکان

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

صارفین بجلی استعمال کریں یا نہ کریں، وہ بجلی کی اضافی پیداوار کی بھاری قیمت 2030 تک ادا کرنے پر مجبور ہوں گے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے انرجی انسٹیٹیوٹ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صارفین پر بجلی کی اضافی پیداواری صلاحیت کی وجہ سے 90 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے، یہ رقم 2030 میں بڑھ کر ایک ارب 60 کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران بجلی کی اضافی پیداوار گرمیوں میں 15 فیصد اور سردیوں میں 40 فیصد تک رہے گی۔

انرجی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت تک بجلی کے جو کارخانے لگ چکے ہیں یا ابھی زیرتکمیل ہیں، ان تمام سے پاکستان کی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی رہے گی جسے استعمال نہ کرنے کے باوجود اس کی ادائیگی صارفین پرڈالی جائے گی۔

صارفین اس وقت 90 کروڑ روپے اضافی ادا کرنے پر مجبور ہیں، یہ رقم 2030 میں بڑھ کر ایک ارب 60 کروڑ روپے تک جا پہنچے گی۔

لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر فیاض چوہدری کا کہنا ہے کہ اس کی مثال ایک گاڑی جیسی ہے جسے قسطوں پر خرید کر کے گھر لایا جائے تو اسے استعمال نہ بھی کیا جائے تب بھی قسط کی ادائیگی فوری طور پر واجب الادا ہو جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ بجلی کے شعبے میں بھی یہی ہو رہا ہے جہاں ہر کوئی بجلی کے کارخانے لگائے جا رہا ہے اور مستقبل میں مزید کارخانے لگانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، لیکن کوئی بھی مسئلے کی جڑ کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔

فیاض چوہدری نے کہا کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کے لیے مزید کارخانے لگانے کے بجائے بجلی کی بچت اس مسئلے کا حقیقی حل ہے۔

اس سے قبل معروف کاروباری و سماجی شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی نے نیریٹو کو انٹرویو دیتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ بجلی کے مزید کارخانے نہ لگائے کیونکہ دنیا کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں صنعتی و کاروباری سرگرمیاں سست پڑنے کا امکان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کاروباری سرگرمیاں سست رفتار ہوں گی تو بجلی کا استعمال بھی کم ہو جائے گا جس کی وجہ سے بجلی کی اضافی پیداوار کی قیمت حکومت کو ادا کرنی پڑے گی جسے یا تو صارفین کی طرف منتقل کیا جائے گا یا پھر گردشی قرضے کی شکل میں حکومت کے لیے بوجھ بڑھتا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان میں طلب سے زیادہ بجلی کی پیداوار ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان کا گردشی قرضہ 2 ارب 26 کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔

گردشی قرضہ بڑھنے کی دیگر وجوہات میں بجلی کی ترسیل و تقسیم کا ناکارہ نظام، کرپشن، بجلی چوری اور لائن لاسز شامل ہیں۔

اس وقت جبکہ دنیا توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف جا رہی ہے، پاکستان میں درآمد شدہ ایندھن سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے جس سے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے بلکہ پاکستان کا درآمدی بل بھی بڑھتا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

موجودہ حکومت نے اضافی بوجھ عوام تک منتقل کیا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس سے نہ صرف گھریلو صارف کا بجٹ متاثر ہوا ہے بلکہ صنعتی و کاروباری حلقوں کے لیے کام جاری رکھنا دشوار ہو گیا ہے۔

- Advertisement -
مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین

آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل شروع، عوام کے لیے مشکلات میں اضافہ

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات...

گردشی قرضوں میں کمی کے لیے فی یونٹ 31 روپے تک سرچارج نافذ کرنے کی تجویز

وزارت توانائی گردشی قرضوں میں کمی لانے کے لیے...