علم، معلومات اور تخلیقیت

Date:

معلومات کا علم میں تبدیل ہونا ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے اور اس کے مختلف مراحل ہیں جن میں سے بیشتر ہماری ذات کے شعوری حصے کی دسترس سے باہر ہیں۔ جب معلومات ذہن میں داخل ہوتی ہیں تو سب سے پہلے مرحلے میں شعوری ذہن اسے دھکیل کر غیر شعورکی نگری میں پھینک دیتا ہے۔ اس وسیع وادی میں جگہ جگہ مشینیں نصب ہیں جو ان معلومات کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہیں کہ ان کا ایک ایک ریشہ الگ ہوجاتا ہے۔ اس وسیع علاقے میں پہلے بھی معلومات کا ایک وسیع ملیدہ موجود ہے اور یہ بے شکل سا نیا مواد بھی اسی انبار میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب سابقہ اورموجودہ، تمام معلومات ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہوجاتی ہیں کہ انہیں دوبارہ پہلے والی شکل میں لانا ناممکن ہوتا ہے۔

اس مرحلے پر تخیل نام کا فسوں گر میدان میں اترتا ہے اوراس گندھے ہوئے مواد سے رنگا رنگ قسم کے پتلے بنا بنا کر نفس شعوری کو بھیجتا جاتا ہے جو یا انہیں رد کر کے واپس بھیج دیتا ہے یا مختلف ابلاغی ذرائع کی مدد سے انہیں دنیا کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ گویا تخیل کا کام مختلف قسم کے پتلے یا تصاویربنا کر تخلیق کار کی ذات کے شعوری حصے کو بھیجنا ہے جو ان کا جائزہ لے کرفیصلہ کرتا ہے کہ یہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہیں کہ نہیں۔ یہ تصاویر انتہائی ذاتی تجربہ ہوتی ہیں اور ابھی تک ایسا کوئی ذریعہ دریافت نہیں ہوا جس کی مدد سے انہیں اپنی اصل صورت میں دوسروں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ ان کے ابلاغ کے لئے الفاظ، موسیقی، مجسمہ سازی یا رنگوں وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

بہت دفعہ یوں ہوتا ہے کہ تخیل مبہم سی تصاویر بھیج دیتا ہے جنہیں کسی بھی سانچے میں ڈھالنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارا شعوری حصہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ ان پیچیدہ تصاویر کو ابلاغ کے کسی بھی ذریعے سے قابل فہم نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لئے عموماً انہیں تخیل کی نگری میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

ایک اچھا تخلیق کار اپنے پاس آنے والی تصاویر کی اکثریت رد کردیتا ہے۔ بہت کم حصہ اس کی تخلیقات میں جگہ حاصل کرپاتا ہے۔ کئی بار ذات کے اندر بپا تخلیقی محشر اسقدر ضد کرتا ہے کہ تخلیق کار بے بس ہو کر ان مبہم سے خاکوں کو خارج کی دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ عموماً ایسی تخلیقات ناقابل فہم ہونے کی وجہ سے مقبولیت کا درجہ نہیں حاصل کر پاتیں۔

ان کی اہمیت صرف یہ ہے کہ تخیل کی نگری پر تحقیق کرنے کے لئے یہ بہت قیمتی سرمایہ ثابت ہوتی ہیں۔ یا پھر نقاد انہیں تخلیق کار کے اندر برپا کہرام کی جھلکیاں دیکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ غالب کی شاعری میں کئی جگہوں پر اس کی جھلکیاں موجود ہیں۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تخیل کی طرف سے جو کچھ بھیجا جاتا ہے اس کی مکمل تصویر کشی ایک ناممکن کام ہے۔ کچھ نہ کچھ کمی ہمیشہ رہ جاتی ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں ابلاغ کے ذرائع نسبتاً نئے ہیں جو ابھی اپنے لڑکپن کے دورسے گزر رہے ہیں۔ اس کے برعکس تخیل جیسا پیر فرتوت نسل انسانی کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا۔

یہ ابلاغی لڑکے بالے اس سرد وگرم چشیدہ بوڑھے سے قدم نہیں ملا پاتے۔ اسی وجہ سے ہر تخلیق کار جب اپنی تخلیق دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو اسے اس میں کمی کا احساس لازمی موجود رہتا ہے۔ یہ جانتا ہے کہ اپنے تخیل کی تصاویر اپنی پورے حسن اور کمال کے ساتھ پیش نہیں کرپایا۔ اس احساس محرومی سے کسی طور مفرممکن نہیں ہے۔ بیشمار فنکار اس کمی کا شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں۔

ہماری ذات کے اندرموجود وادی میں جگہ جگہ ری سائکل کرنے والی مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ معلومات مسلسل وہاں پہنچ رہی ہیں اورانہیں ریزہ ریزہ کر کے تخیل کے کارخانے میں مسلسل بھیجا جا رہا ہے۔ جو اس کی تصاویر بنا بنا کے واپس ہماری ذات کے شعوری حصے کو بھیج رہا ہے۔

جب تک معلومات ان تمام مراحل سے نہ گزریں انہیں علم کی شکل نہیں دی جا سکتی۔ یہ بات صرف فنون لطیفہ پر ہی لاگو نہیں ہوتی، بلکہ خالص فلسفیانہ خیالات اور سائنس و ریاضی جیسے علوم بھی اسی وادی زرخیز سے جنم لے رہے ہیں۔ اپنی اساس میں ہر شعبے کا تخلیقی عمل ایک جیسا ہے۔ ایک ہی چشمہ رواں ہے جہاں سے انفرادی تخیل جرعہ بہ جرعہ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔

علم وادب کے شجر کی جڑیں ایک ہی قسم کی دھرتی سے غذا حاصل کرتی ہیں لیکن باہر کی دنیا میں یہ مختلف شاخوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ایک شاعر تخیل کے تحفوں کو لفظوں کی ملائمت میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے تو ایک ریاضی دان اسے کائنات کی گتھیاں سلجھاتے فارمولوں کی صورت میں انسانیت کے سامنے لاتا ہے۔ یہی صورتحال مصوری، مجمسہ سازی، موسیقی، فلسفہ اور سائنس وغیرہ کی ہے۔

علم اور تخلیق آپس میں اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ یہ ایک ہی شئے کے دو رخ نظر آتے ہیں۔ ہرتخلیق یہ تقاضا کرتی ہے کہ تمام تر معلومات غیر شعور کے حوالے کر دی جائیں۔ گویا معلومات کے ایک بڑے حصے کو بھلا دینا شرط اولین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کی یاداشت غیر معمولی ہوتی ہے، ان میں تخلیقیت کا جوہر عموماً نایاب ہوتا ہے۔

ان کی معلومات شعور کے تالو سے چپک جاتی ہیں، دانتوں میں پھنس جاتی ہیں اور دہن کی دیواروں سے چمٹ جاتی ہیں۔ ایسے لوگ عموماً انہی معلومات کا ایک بدصورت امتزاج علم کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ یہ جگالی کرنے جیسا عمل ہے جس کا سطح پن اہل نظر فوراً پہچان لیتے ہیں۔ ایسے علم کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم بعض اوقات اسے تقدیس کے پردے میں لپیٹ دیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ غیر نافع علم انسانیت کے کندھوں پرطویل عرصے تک سوار رہتا ہے۔

حقیقی دوام صرف اسی علم کو حاصل ہے جس میں تخلیقیت کا جوہر موجود ہو۔ جس معاشرے کا تعلیمی نظام اپنے افراد کی یادداشت چمکانے کا کام کرے، وہاں تخلیقی لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ہمیں قحط الرجال کا منظر دکھائی دیتا ہے۔

مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

Share post:

Subscribe

Popular

More like this
Related

سیاسی بحران اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار

جس وقت جنرل مشرف کے سامنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان...