پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق جنوری میں افراط زر 48 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جس سے آنے والے دنوں کی مشکل صورتحال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو روپے کی قدر میں کمی، ٹیکسوں کی بھرمار اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد جنم لینے جا رہی ہے۔
گزشتہ برس کے مقابلے میں جنوری میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں 27.6 فیصد اضافہ ہوا، یہ مئی 1975 میں ہونے والے 27.8 فیصد کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
مارکیٹ میں افراط زر کی اس بلند سطح کا اندازہ پہلے سے موجود تھا اگرچہ وزارت خزانہ نے 26 فیصد اضافے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
اس کی بنیادی وجہ اشیاء کی رسد میں بڑی رکاوٹ بنی، زرمبادلہ کی کمی کے باعث بندرگاہ پر تقریباً 9000 کینٹنرز پھنسے ہوئے ہیں جن پر اشیائے خورونوش، خام مال اور دیگر درآمد شدہ اشیاء لدی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں افراط زر کی شرح دنیا بھر میں 17ویں نمبر پر ہے جس میں آنے والے دنوں میں مزید تیزرفتاری کا امکان ہے۔
پی بی ایس کے اعدادوشمار کے مطابق دیہی علاقوں میں افراط زر 32.3 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 24.4 فیصد تک جا پہنچا ہے، جنوری کے دوران دیہی علاقوں میں اشیائے خورونوش میں افراط زر کی شرح 45.42 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 39 فیصد رہی۔
اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ معیشت کا پہیہ سست پڑ چکا ہے جبکہ بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ایک بڑے طبقے کی رسائی سے باہر ہو چکی ہیں۔
پی بی ایس کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری میں فوڈ پرائس گروپ کی قیمتوں میں 4. فیصد اضافہ ہوا ہے، اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتیں 61.6 فیصد تک بڑھ گئی ہیں جس سے طلب و رسد کے سلسلے میں رکاوٹوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
پیاز کی قیمتیں شہروں میں 468 فیصد اور دیہاتوں میں 530 فیصد تک بڑھ چکی ہیں، اسی طرح مرغی کے گوشت کی قیمتیں بھی 83 فیصد اضافے کے ساتھ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
آٹا پاکستان کے عوام کی سب سے بنیادی ضرورت ہے جس کی قیمت جنوری میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 78 فیصد بڑھ چکی ہے، سفید آٹے کی قیمت میں 61.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح چاول بھی گزشتہ ماہ 66 فیصد مہنگا ہو گیا ہے۔
گزشتہ برس کے مقابلے میں جنوری کے دوران گھی اور پکانے کے تیل کی قیمتوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پی بی ایس کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ ذرائع نقل و حمل کی قیمتیں 39 فیصد بڑھی ہیں۔ گزشتہ ماہ حکومت نے پٹرول پمپ مالکان پر ریاست کی رٹ نافذ کرنے کے بجائے صارفین پر 35 روپے لیٹر اضافے کے بوجھ کا آسان راستہ اختیار کیا۔
نان فوڈ اشیا کو دیکھا جائے تو جنوری کے دوران شہری علاقوں میں 15.6 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 21 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جولائی سے جنوری کے دوران کے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو اوسط افراط زر 25.4 فیصد رہا ہے جو حکومت کے 11.5 فیصد کے ہدف سے دوگنا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں اوسط افراط زر کی شرح 29 فیصد رہی ہے۔