کاروباری طبقے نے 2022 کو پاکستانی معیشت کا بدترین سال قرار دے دیا۔
اس برس پاکستانی روپے کی قدر میں 49.31 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ شرح سود 16 فیصد تک بڑھا دی گئی جس کا معیشت کی شرح نمو پر شدید منفی اثر ہوا۔
رواں برس افراط زر ڈبل ڈیجیٹس میں رہا جبکہ سی پی آئی اس وقت 25 فیصد کے آس پاس ہے، موجودہ مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران ایس پی آئی 28 فیصد کے قریب رہا۔
پاکستان بزنس فورم کے سی ای او احمد جواد کا کہنا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو کم از کم 15 برسوں کے لیے میثاق معیشت پر متفق ہونا چاہیئے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کا مجموعی بیرونی قرض 125 ارب ڈالرز کے قریب ہے جسے اتارنے یا ادا کرنے کے لیے چین اور امریکہ جیسی بڑی معیشتیں ہمارا کتنا ساتھ دے سکتی ہیں؟
احمد جواد کا کہنا تھا کہ اتنے بھاری قرض کا کوئی حل تلاش کیے بغیر معیشت زوال کا شکار رہے گی کیونکہ قرض اور سود کی ادائیگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پرانے قرضوں کی ادائیگی اور جاری کھاتوں کا خسارہ پورا کرنے کے لیے پاکستان کو مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ 2022 کے دوران طویل المدت اسٹرکچرل کمزوریوں اور سیاسی جھگڑوں نے معاشی بحران میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے ایکسپریس ٹریبون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ رواں برس پاکستان دیوالیہ ہونے سے محفوظ رہا مگر اس کی وجہ ملکی معیشت کے مضبوط پہلو نہیں تھے بلکہ قرض کی نوعیت تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مجموعی قرض کا 30 فیصد چین کو دینا ہے، 20 فیصد سعودی عرب کو ادا کرنا ہے جبکہ امریکہ آئی ایم ایف کا ہمارے ساتھ رویہ نرم کر سکتا ہے، اگلے برس ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم ان تینوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھیں۔