سمندرپار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر میں نومبر کے دوران 14 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران ملک میں بھیجی جانے والی رقوم میں 9.6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں ترسیلات زر کا حجم 2.5 ارب ڈالرز تھا جبکہ رواں سال نومبر میں یہ رقم کم ہو کر 2.1 ارب ڈالرز رہ گئی ہے۔
اکتوبر میں ترسیلات زر 2.215 ارب ڈالرز تھیں جن میں نومبر کے دوران 5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
گزشتہ برس جولائی سے نومبر کے دوران 13.286 ارب ڈالرز کی ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں جو اس سال 9.6 فیصد کم ہو کر 12 ارب ڈالرز رہ گئی ہیں۔
بینکرز اور کرنسی کے ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ ڈالر کے نرخ میں مصنوعی کمی ملک کو بھاری پڑ سکتی ہے، اس وقت ڈالر کا انٹربینک مارکیٹ ریٹ 224.71 روپے ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں اس کا نرخ 255 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اس فرق کے باعث ایک گرے مارکیٹ پیدا ہو چکی ہے جو ترسیلات زر کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے، سمندرپار پاکستانی ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنا زیادہ نفع بخش سمجھتے ہیں۔
کرنسی مارکیٹ نے گورنر سٹیٹ بینک کی اس یقین دہانی کا بھی کوئی اثر نہیں لیا کہ پاکستان نے رواں مالی سال کے دوران مزید 4.7 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں، باقی قرض موخر ہو جائے گا۔
حال ہی میں سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی کہا ہے کہ ملک کو فری مارکیٹ ایکسچینج ریٹ کی ضرورت ہے، اسی کے ذریعے ہی حکومت کو اس محاذ پر درپیش مسائل حل ہو سکتے ہیں۔