سکولوں میں حجاب پر پابندی کے حکم کے معاملے میں بھارتی سپریم کورٹ تقسیم ہو گئی ہے جس کے بعد معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا۔
بھارتی ریاست کرناٹک میں فروری میں سکولوں میں لباس کے معاملے پر حکومتی پابندیوں کے بعد مسلمان طلبہ اور ان کے والدین نے مظاہرے کیے تھے جس کے جواب میں ہندو طلبہ نے جوابی احتجاج شروع کر دیا تھا۔
عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب مسلمان یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ نریندر مودی کی ہندو قوم پرستی پر مبنی حکومت انہیں کمتر درجے کا شہری بنا رہی ہے۔
ایران میں حجاب کے معاملے پر شروع ہونے والے ملک گیر احتجاج کے بعد بھارت میں اس موضوع پر بحث دوبارہ تیز ہو گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی پینل کے ایک جج جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ اس مقدمے میں ہمارے درمیان اختلاف رائے موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ حجاب پر پابندی کے خلاف مسلمانوں کی درخواست مسترد کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ جج جسٹس سھدانتو ڈھولیا کی رائے ہے کہ حجاب ہر شخص کا ذاتی انتخاب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس اس مقدمے کے لیے ایک بڑا بنچ تشکیل دے سکتے ہیں تاہم یہ معلوم نہیں کہ کب ایسا ممکن ہو پائے گا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پورے ملک پر لاگو ہوتا ہے۔
مسلمان درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے ایک وکیل انس تنویر نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے منقسم فیصلے کو اپنی جزوی فتح قرار دیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ چیف جسٹس جلد ایک بڑا بنچ تشکیل دیں گے اور ہمیں ایک آخری فیصلہ مل سکے گا۔
مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جو ایک ارب کروڑ شہریوں کا فیصد حصہ بنتے ہیں۔
حجاب پر پابندی کے مخالفین اسے مسلمانوں کو کمتر سمجھنے کا ایک طریقہ گردانتے ہیں، ان کے خیال میں ریاست کرناٹک میں حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) اس تنازع کے ذریعے اگلے برس مئی میں ہونے والے انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔