برطانیہ میں ہونے ہونے والی مردم شماری کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں عیسائیت ایک اقلیتی مذہب بن گیا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں 2021 میں کی گئی مردم شماری کے اعدادوشمار سے سامنے آئی ہے۔
مردم شماری کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں خود کو عیسائی قرار دینے والے افراد کی تعداد میں 55 لاکھ (17فیصد) کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
برطانیہ میں عیسائیت کے پیروکاروں کی تعداد دو کروڑ 75 لاکھ ہو گئی ہے جو کہ 2011 میں 3 کروڑ 33 لاکھ تھی۔
اسی طرح خود کو کسی بھی مذہب کا پیروکار نہ قرار دینے والوں کی تعداد میں 85 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد دو کروڑ 22 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
اس دوران مسلمانوں کی تعداد میں 12 لاکھ (43 فیصد) کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد برطانیہ کی مسلمان آبادی کی تعداد 39 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
برطانیہ میں خود کو غیرمذہبی قرار دینے والوں کی تعداد 20 سال قبل آبادی کا 14.8 فیصد تھی جو 2021 میں بڑھ کر 37.2 فیصد ہو گئی ہے۔
یارک کے آرک بشپ سٹیفن کوٹرل نے مردم شماری کے نتائج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ عیسائیت پر یقین رکھنے والے افراد کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مصارف زندگی کے بحران اور یورپ میں جاری جنگ کے باعث لوگوں کو اب بھی روحانی بالیدگی کی ضرورت ہے۔
برطانیہ میں غیرمذہبی افراد کے حقوق کے لیے سرگرم انسانیت پرست گروپ کے چیف ایگزیکٹو اینڈریو کوپن کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ کی آبادی کی سوچ اس کی ریاست سے کس قدر مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان نتائج کے بعد معاشرے میں مذہب کے کردار پر ازسر نو سوچنے کی ضرورت ہے۔
مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں 81.7 فیصد (4 کروڑ 87 لاکھ) افراد سفید فام ہیں جبکہ 9.3 فیصد (55 لاکھ) ایشیائی ہیں جن کی تعداد 2011 میں 42 لاکھ تھی۔
اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں دو لاکھ 91 ہزار افراد کی مادری زبان پنجابی جبکہ دو لاکھ 70 ہزار کی اردو ہے۔
گزشتہ 10 سالوں میں برطانیہ میں سکھوں کی تعداد 4 لاکھ 23 ہزار سے بڑھ کر 5 لاکھ 24 ہزار ہو گئی ہے جبکہ ہندوؤں کی تعداد 8 لاکھ 18 ہزار سے بڑھ کر 10 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
اسی طرح یہودیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جو 2011 میں دو لاکھ 65 ہزار تھی اور اب دو لاکھ 71 ہزار ہو گئی ہے۔