یوکرین جنگ کے بعد عائد ہونے والی پابندیاں کی وجہ سے روس نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے، اس حوالے سے چین کے ساتھ دوطرفہ معاشی روابط میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
روس سے مغربی کمپنیوں کے انخلا کے بعد چینی کمپنیاں اس خلا کو پر کرنے کے لیے تیزی سے متحرک ہو گئی ہیں۔
باہمی تجارت میں ریکارڈ اضافہ
چینی کسٹمز کے اعدادوشمار کے مطابق اگست 2022 میں گزشتہ برس اسی ماہ کے مقابلے میں روسی اشیاء کی خریداری میں 60 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جولائی میں یہ اضافہ 49 فیصد تھا۔
اسی طرح چین سے روس جانے والی اشیاء میں بھی اضافہ سامنے آیا ہے، جولائی کے مقابلے میں اگست میں یہ اضافہ 26 فیصد (8 ارب ڈالرز) ریکارڈ کیا گیا۔
رواں برس کے پہلے 8 مہینوں میں چین اور روس کے درمیان اشیاء کی تجارت میں 31 فیصد اضافہ سامنے آیا ہے جو 117 ارب ڈالرز بنتا ہے، گزشتہ برس یہ تجارت 147 ارب ڈالرز رہی تھی۔
معاشی ترقی، توانائی اور ماحولیات کے سابق امریکی انڈرسیکرٹری سٹیٹ کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کے باعث روس اپنے کئی دوست ممالک سے محروم ہوا ہے جس کے بعد اس کا چین پر انحصار بہت بڑھ گیا ہے۔
چین کے تجارتی حجم میں روس کا حصہ 2.8 فیصد ہو گیا ہے جو گزشتہ برس 2.5 فیصد تھا، ابھی بھی امریکہ اور یورپی یونین کا حصہ بہت زیادہ ہے۔
اس کے برعکس یوکرین کی جنگ سے پہلے ہی چین روس کا سب سے بڑا تجارت پارٹنر تھا، روس کی غیرملکی تجارت میں اس کا حصہ 16 فیصد تھا۔
اگرچہ جنگ کے بعد روس نے تجارتی اعدادوشمار کو شائع کرنا بند کر دیا ہے تاہم ایک یورپی تھنک ٹینک کے مطابق جون میں روسی برآمدات میں چین کا حصہ 24 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
چینی کسٹمز کے اعدادوشمار کے مطابق روس مسلسل تین ماہ سے چین کو تیل کی رسد میں پہلے نمبر پر رہا ہے، یہی صورتحال کوئلے کی ہے جہاں صرف جولائی میں روس سے کوئلے کی درآمدات 7.42 میٹرک ٹن کی شکل میں 5 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
کیا روس میں چینی یوان ڈالر کی جگہ لے رہا ہے؟
یوکرین کی جنگ کے باعث روس عالمی مالیاتی نظام سے بہت حد تک کٹ گیا ہے جس کی وجہ سے روس میں چینی کرنسی یوان کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
روسی اسٹاک مارکیٹ میں جولائی میں اہم کرنسیوں کی خریدوفروخت میں یوان کا حصہ 20 فیصد تک پہنچ گیا ہے، جنوری 2022 میں یہ صرف 0.5 فیصد تھا۔
روس کے ریاستی میڈیا آر ٹی کے مطابق گزشتہ ماہ روبل، یوان کا روزانہ کا تجارتی حجم ڈالر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
سوئفٹ بین الاقوامی ادائیگیوں کو پراسیس کرنے کے لیے استعمال ہونے والا میسجنگ سسٹم ہے، اس کے شائع کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی میں چین سے باہر یوان میں ادائیگیوں کے حوالے سے ہانگ کانگ اور برطانیہ کے بعد روس دنیا کی تیسری سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ فروری میں روس پہلی 15 یوان مارکیٹس میں شامل ہی نہیں تھا۔
گزشتہ ہفتے روسی کمپنی گیزپرام نے قدرتی گیس کی سپلائی کے لیے چین سے یوان اور روبل میں بلنگ کرنے کا اعلان کیا تھا، اسی طرح روس کے وی ٹی بی بنک نے بھی کہا ہے کہ وہ چین کے لیے یوان میں رقوم کے ٹرانسفر کا نظام بنا رہا ہے۔
چین کے لیے یوان کو عالمی کرنسی بنانے کے خواب کی تعبیر میں یہ اہم قدم ہے۔
یوریشیا گروپ سے تعلق رکھنے والے تھامس کا کہنا ہے کہ روس میں یوان کا بڑھتا استعمال چین کے اس طویل المدتی مقصد کی جانب پیش رفت ہے جس میں وہ یوان کو عالمی کرنسی کی شکل دے کر مغرب کی ممکنہ مالی پابندیوں کے خطرے سے آزاد ہو سکتا ہے۔
چینی کمپنیاں خلا کو کیسے پر کر رہی ہیں؟
مغربی برانڈز کے روس سے انخلا کے بعد چینی کمپنیاں اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل اور جون کے درمیان روس میں چینی سمارٹ فونز تمام تر نئی فروخت کا دوتہائی حصہ رہے ہیں، پہلی سہ ماہی میں چینی سمارٹ فونز کا حصہ مارکیٹ کا 50 فیصد تھا جو اپریل میں بڑھ کر 60 فیصد اور جون میں 70 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
روسی میڈیا کے مطابق جولائی کے دوران روس میں شیاؤمی کے سمارٹ فونز مارکیٹ کا 42 فیصد رہے ہیں، اس کے مقابلے میں سام سنگ، جو پہلے مقبول ترین کمپنی تھی، کا حصہ اسی ماہ صرف 8.5 فیصد اور ایپل کا 7 فیصد رہ گیا ہے۔
یوکرین جنگ سے قبل سام سنگ اور ایپل کا روسی مارکیٹ میں حصہ تقریباً 50 فیصد تھا مگر جنگ کے بعد انہوں نے نئی پراڈکٹس کی فروخت کو معطل کر دیا تھا۔
اسی طرح چینی گاڑیوں کا بھی روس میں سیلاب آ گیا ہے، اگست میں چینی کاریں مارکیٹ کا 26 فیصد لے اڑی ہیں جو ایک نیا ریکارڈ ہے، رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں ان کا حصہ صرف 9.5 فیصد تھا۔
چین کا جنگ سے متعلقہ سازوسامان کی فروخت سے احتراز
یوریشیا گروپ کے تھامسن کے مطابق چین پابندیوں کے خوف سے روس کو جنگی یا ٹیکنالوجی میں مدد فراہم نہیں کر رہا، ابھی تک چین روس کے خلاف عائد بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی سے احتراز کر رہا ہے۔