اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران سمندرپار پاکستانیوں کی بھیجی گئیں ترسیلات زر میں 11 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
گزشتہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران ترسیلات زر 20.2 ارب ڈالر تھیں جو رواں مالی سال اسی عرصے کے دوران 18 ارب ڈالر رہیں۔
فروری 2023 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 1.99 ارب ڈالر کی رقوم بھیجیں جو جنوری کے 1.89 ارب ڈالر کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ مگر گزشتہ برس فروری کے مقابلے میں 9.5 فیصد کم ہیں۔
گزشتہ برس فروری میں ترسیلات زر کی مد میں 2.19 ارب ڈالرز موصول ہوئے تھے، اپریل 2022 میں ترسیلات زر 3.12 ارب ڈالر تھیں جو ایک ماہ میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ ترسیلات زر تھیں۔
کے اے ایس بی کے ہیڈ آف ریسرچ یوسف رحمان نے ایکسپریس ٹریبون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترسیلات زر میں کمی کی وجہ ڈالر کی بلیک مارکیٹ ہے جو ایکسچینج ریٹ سے 20 روپے زائد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انٹربینٹ میں ڈالر 280 روپے میں میسر ہے جبکہ بلیک مارکیٹ میں اس کی قدر 300 روپے سے زائد ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی سرکاری ذرائع سے رقوم بھیجنے کو ترجیح نہیں دیتے۔
دسمبر 2022 اور جنوری 2023 کے دوران انٹربینک اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں فرق 30 سے 40 روپے تک پہنچ گیا تھا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اس پر تشویش کا اظہار کرنے کے بعد انٹربینک میں جنوری کے آخر میں ڈالر کی قدر میں 25 روپے کا تاریخی اضافہ ہوا، مارچ میں ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی اور ڈالر 19 روپے مہنگا ہوا۔
جنوری سے اب تک روپے کی قدر میں 50 روپے تک کی کمی واقع ہو چکی ہے جو 18 فیصد بنتی ہے۔
امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ انٹربینک میں ڈالر کی قدر بڑھنے سے ترسیلات زر میں اضافہ ہو گا اور سمندرپار پاکستانی سرکاری ذرائع سے رقوم بھیجنا شروع کر دیں گے۔
ہر سال رمضان المبارک، عیدالاضحیٰ اور عیدالفطر میں ترسیلات زر کی آمد میں تیزی آ جاتی ہے، اس برس رمضان اور عید الفطر مارچ اور اپریل میں آنے ہیں، اس لیے ان دونوں مہینوں میں ترسیلات زر بڑھ جائیں گی۔