وزارت توانائی گردشی قرضوں میں کمی لانے کے لیے بجلی پر 31.60 روپے فی یونٹ تک سرچارج نافذ کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔
حکومت کے آئی ایم ایف کے پروگرام کو جاری رکھنے میں گردشی قرضوں کا بڑھتا حجم ایک رکاوٹ ہے جسے کم کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ توانائی کے شعبے میں قرضے کم کرنے کے جس منصوبے پر اتفاق کیا تھا اس میں 700 ارب روپے کا فرق آ رہا ہے جسے پورا کرنے کے لیے مختلف آپشن پر غور کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے تجارتی اور صنعتی شعبوں سمیت 5 کیٹگریز پر سرچارج عائد کرنے کی تجویز زیرغور ہے جس پر عمل کی صورت میں کمرشل صارفین کا فی یونٹ ریٹ 94 روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
ان کیٹگریز میں کمرشل، بلک، صنعتی، دیگر اور جنرل سروسز شامل ہیں، اس سرچارج کو نافذ کرنے کے لیے حکومت کو نیپرا ایکٹ میں ترمیم کرنا پڑے گی۔
اس تجویز کے مطابق کمرشل صارفین کی فی یونٹ قیمت 80 روپے جبکہ دیگر کی 77 روپے تک پہنچ جائے گی۔
حکومت کے زیرغور دوسرے آپشن کے تحت بجلی کی فی یونٹ قیمت ساڑھے 12 روپے بڑھائی جا سکتی ہے جس کے بعد کمرشل صارفین کے لیے 67 روپے فی کلو واٹ جبکہ دیگر شعبوں کے لیے 54 روپے فی یونٹ کر دی جائے گی۔
حکومت نے کسان پیکج اور برآمدی صنعتوں کے لیے زیروریٹنگ کا اعلان کیا ہوا ہے جن پر 146 ارب روپے صرف ہوں گے۔
آئی ایم ایف اس سبسڈی پر ہونے والے اخراجات کو دیگر وسائل سے پورا کرنے پر زور دے رہا ہے جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ابھی تک حکومت بجلی کے نرخ بڑھانے پر غور نہیں کر رہی۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں آئی ایم ایف سے طے شدہ پروگرام سے 400 ارب روپے کا انحراف سامنے آ چکا ہے جبکہ پورے مالی سال کے دوران کم از کم 700 ارب ڈالرز کا انحراف ہو سکتا ہے۔
اس خسارے کی وجوہات میں بڑھتے ہوئے لائن لاسز، بلوں کی وصولی میں کمی، قیمتوں میں اضافے کی رفتار میں سست روی اور حکومت کی جانب سے دی گئی مختلف سبسڈیز شامل ہیں۔