اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب 72 کروڑ ڈالرز ہو گئے ہیں جو 4 برسوں کے دوران کمترین سطح ہے۔
کمرشل بینکوں کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 5 ارب 87 کروڑ ڈالرز رہ گئے ہیں، ملک میں مجموعی طور پر غیرملکی ذخائر 12 کروڑ 58 ارب ڈالرز ہو گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹیٹ بینک میں موجود 6 ارب 72 کروڑ ڈالرز کے ذخائر ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان نے رواں مالی سال کے اگلے 7 ماہ میں صرف 4.7 ارب ڈالرز واپس کرنے ہیں، بقیہ رقم کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔
سٹیٹ بنک کی پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے حال ہی میں دو کمرشل بینکوں کا 1.2 ارب ڈالرز کا قرض واپس کیا ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک دوست ملک سے 3 ارب ڈالرز کے حصول کی کوشش کر رہی ہے جبکہ دیگر اداروں سے قرضے بھی پائپ لائن میں ہیں جن کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر وقت کے ساتھ بہتر ہوتے جائیں گے۔
جمیل احمد نے بتایا کہ حکومت نے 2022-23 کے مالی سال کے دوران 23 ارب ڈالرز کا قرض واپس کرنا تھا جس میں سے 6 ارب ڈالرز کی ادائیگی ہو چکی ہے جبکہ 4 ارب ڈالرز کا قرض موخر ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بقیہ 13 ارب ڈالرز میں سے 8.3 ارب ڈالرز کی ادائیگی موخر کرنے کے لیے متعلقہ حکومتوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے جس کے بعد صرف 4.7 ارب ڈالرز کی ادائیگی باقی رہ جائے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کا رواں مالی سال جاری کھاتوں کا خسارہ 10 ارب ڈالرز کے قریب رہے گا جو کہ جی ڈی پی کا 2.5 فیصد بنتا ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے، سینئر تجزیہ کار عامر ضیاء کے مطابق حکومت اگر تمام لیٹر آف کریڈٹ کھول دے تو زرمبادلہ کے ذخائر میں سے 4 ارب ڈالرز کم ہو جائے گا۔
دوسری جانب روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں نومبر کے دوران 140 ملین ڈالرز آئے ہیں جو 23 ماہ کی کمترین سطح ہے۔
پاکستان اب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ایک اور قسط جاری ہونے کی امید کر رہا ہے لیکن مالیاتی خسارے میں اضافے پر آئی ایم ایف کے اعتراض کے سبب بظاہر نویں جائزہ کے لیے مذاکرات تاخیر کا شکار ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی اگلی قسط حاصل کرنے کے لیے 800 ارب روپے کے اضافی محاصل جمع کرنے ہوں گے جن کے باعث عوام پر بوجھ پڑے گا اور جس کے سیاسی نقصانات ہوں گے۔