ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، پاکستان کے 25 مایہ ناز ماہرین معیشت و توانائی نے فیصلہ ساز قوتوں کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں توانائی کے شعبے میں جنگی بنیادوں پر اصلاحات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2022 کے مالی سال کے دوران 17.4 ارب ڈالر کے جاری کھاتوں کے خسارے کی سب سے بڑی وجہ توانائی سے متعلقہ درآمدات تھیں، اس لیے معاشی خودمختاری کا واحد راستہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات ہیں۔
خط میں ان تمام اہم پہلوؤں پر زور دیا گیا ہے جن میں اصلاحات لا کر ملکی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
مرکزیت کا خاتمہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے میں مسائل کی بنیادی وجہ حکومت کی ضرورت سے زیادہ مداخلت ہے، اس شعبے کو حکومتی مرکزیت سے نجات دلانا اور غیرضروری ضوابط ختم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ وزارت توانائی کو صرف پالیسی بنانے تک محدود کر دینا چاہیئے اور اس وزارت میں ان پروفیشنل کو جگہ دینی چاہیئے جو اس شعبے سے متعلقہ علم اور تجربہ رکھتے ہوں۔
اسی طرح نیپرا اور اوگرا جیسے اداروں میں بھی توانائی کے ماہرین کی شمولیت ضروری ہے، مستقبل میں توانائی کے شعبے پر نظر رکھنے کے لیے ایک ہی ریگولیٹری ادارہ ہونا چاہیئے۔
ماہرین نے تجویز دی ہے کہ حکومت جن سرکاری کارخانوں (پی ایس ایز) کی نجکاری کا ارادہ نہیں رکھتی، انہیں مکمل خودمختاری دے دی جائے، دنیا کے دیگر ممالک میں خودمختار ریاستی ادارے پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں کے ساتھ برابر کا مقابلہ کر رہی ہیں۔
توانائی کی بچت
ماہرین نے کہا ہے کہ توانائی میں صرف 5 فیصد بچت سے درآمدی بل میں 12 فیصد کمی ہوتی ہے جو 3 ارب ڈالرز کے برابر بنتا ہے۔ اس لیے حکومت کو فوری طور پر بچت کی مہم شروع کر دینی چاہیئے۔
اس حوالے سے انہوں نے کئی تجاویز پیش کی ہیں جن کے مطابق گھڑیوں کو کم از کم ایک گھنٹہ آگے کرنا، خریداری کے مراکز کو 7 بجے بند کر دینا، ریستوران اور شادی ہالوں کو رات دس بجے تک کھلے رہنے کی اجازت دینا شامل ہے۔
ماہرین کے مزید تجویز کردہ اقدامات میں بنکوں کو دن دو بجے، سرکاری و غیرسرکاری دفاتر کو سہ پہر پانچ بجے، ہفتے میں چار دن اسکول کھولنا، دفاتر میں ائیرکنڈیشنر کو 26 ڈگری تک رکھنے کی پابندی شامل ہیں۔
مقامی وسائل کو استعمال میں لانا
اپنے خط میں ماہرین نے بتایا کہ مقامی گیس کی پیداوار گزشتہ دس برسوں میں 21 فیصد سے زیادہ گر چکی ہے جبکہ تیل کی پیداوار میں 2015 کے بعد 19 فیصد کمی آئی ہے جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار بڑھ چکا ہے۔
مقامی وسائل کی کمیابی کی وجوہات میں بیوروکریسی کے روایتی تاخیری حربے اور مشینری کی قیمتیں شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پبلک سیکٹر کمپنیوں کا تیل و گیس کے شعبے پر راج ہے مگر یہ ملکی ذخائر میں ہونے والی کمی کو روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہیں۔ اس لاپرواہی کے پیچھے احتساب کے اداروں کی غیرضروری مداخلت کام کر رہی ہے جو ان کمپنیوں کی قوت فیصلہ کو کم کر دیتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کمپنیوں کو اعتماد دیا جائے تاکہ وہ نتائج کے غیرضروری خوف سے آزاد ہو کرخطرات مول لے سکیں اور ضروری اقدامات کر سکیں۔
توانائی کے ماہرین نے اپنے خط میں تجویز پیش کی کہ ایسی آزادانہ کمیٹیاں قائم کی جائیں جو اس شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہوں اور شکایات کی تحقیق کر سکیں۔
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ پاکستان سالانہ 19 ملین ٹن کوئلہ درآمد کرتا ہے جس پر 3 ارب ڈالرز خرچ ہوتے ہیں، تھر میں 75 ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں جنہیں قومی ترجیح قرار دینا چاہیئے تاکہ قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ تھر میں کان کنی کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے، کوئلہ کے پراسیسنگ پلانٹس بڑھائے جائیں اور اسے پاکستان ریلویز سے منسلک کیا جائے۔
پروفیشنلز کے مطابق پاکستان میں پن بجلی کے ذریعے 40 ہزار میگاواٹ پیدا کرنے کی مزید صلاحیت موجود ہے، اسی طرح سورج کی روشنی اور ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹس پر 6 ماہ سے ایک سال کے دوران مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ صرف گھارو کیٹی بندر کے علاقے سے ہوا کے ذریعے 60 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ عالمی بنک کے مطابق پاکستان میں بجلی کی موجود صلاحیت میں توانائی کے متبادل ذرائع کا 2025 تک 20 فیصد اور 2030 تک 25 فیصد حصہ شامل کیا جا سکتا ہے۔
توانائی کے شعبے میں بجلی کا بڑھتا حصہ
خط میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2020 کے دوران پاکستان میں تیل کے 80.6 ملین ٹن کے برابر توانائی استعمال ہوئی جس میں 50 فیصد بجلی کی پیداوار، 21 فیصد نقل و حمل اور 11 فیصد رہائشی سیکٹر کا حصہ تھا۔
ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث نقل و حمل، صنعت وغیرہ میں توانائی کے شعبے میں بجلی کا حصہ بڑھتا جا رہا ہے۔
انہوں نے چین کے شہر شینزین کی مثال پیش کرتے ہوئے خط میں لکھا کہ وہاں مختصر سے عرصے میں بسوں اور ٹیکسیوں کو متبادل ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی پر منتقل کر دیا گیا، یہی کام پاکستان میں کراچی جیسے شہر سے شروع کیا جا سکتا ہے۔
خط میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ قدرتی گیس کو مرحلہ وار صرف بجلی کی پیداوار اور صنعتوں کے لیے مختص کر دینا چاہیئے، اس وقت آبادی کا 30 فیصد پائپ لائن کے ذریعے گیس استعمال کرتا ہے جسے بجلی یا ایل پی جی پر منتقل کرنا ضروری ہے، باقی آبادی کا انحصار لکڑیوں، ایل پی جی اور بائیوگیس پر ہے۔
توانائی کے نظام میں بہتری اور قیمتوں میں یکسانیت لانا
ماہرین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں پیداوار سے لے کر کھپت تک توانائی کا پورا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے، انتہائی ناکارہ پاور پلانٹ کام جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ گیس کے سکڑتے ذخائر پر ایک بوجھ ہے۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ تیل کی مصنوعات کو سڑک کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں تک پہنچانے پر ڈیزل کی بھاری مقدار صرف کی جاتی ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ کراچی شہر کے کئی علاقوں میں ٹینکر کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔
توانائی کی قیمتوں میں فرق کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جب رہائشی علاقوں اور صنعتوں کو گیس پر سبسڈی دی جاتی ہے تو اس کے استعمال میں ضیاع کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
اس حوالے سے اصلاحات کی تجویز دیتے ہوئے ماہرین نے لکھا ہے کہ گیس کی یکساں قیمت، پائپ لائنز کا جال پھیلانا، عوام میں آگہی مہم چلانا، گھریلو اور صنعتی آلات کے لیے نئے پیمانے مقرر کرنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گھریلو استعمال کی گیس اصل قیمت سے اوسطاً 50 فیصد سستی دی جاتی ہے، اس لیے صرف انتہائی ضرورت مند صارفین کے علاوہ گیس پر دی جانے والی تمام سبسڈیز ختم کر دینی چاہئیں۔
نجکاری اور ڈی ریگولیشن
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسابقتی فضا میں مارکیٹس پروان چڑھتی ہیں، پاکستان میں ٹیلی کام اور بنکنگ سیکٹر اس کی مثالیں ہیں، اسی طرح کے الیکٹرک کے نقصانات جو کہ 2005 میں 37.8 فیصد تھے وہ 2021 میں کم ہو کر 17.5 فیصد رہ گئے ہیں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن سب سے کمزور کڑی ہیں، ان دو شعبوں کے نقصانات اور بلوں کی عدم ادائیگی گردشی قرضوں کی بڑی وجہ ہیں۔ تاہم ان میں بہتری لانے میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
خط کے آخر میں 25 ماہرین توانائی نے لکھا ہے کہ اگر ان اصلاحات پر عمل کر لیا جائے تو موجودہ معاشی بحران پاکستان کی آخری آزمائش ثابت ہو سکتا ہے۔
- Advertisement -