دو امریکی بینک ڈیفالٹ: کیا عالمی سطح پر بینکوں کا نظام خطرے میں پڑ گیا؟

پوسٹ شیئر کریں

رکنیت

مقبول

صرف ایک ہفتہ پہلے وال سٹریٹ میں یہ بحث چل رہی تھی کہ کیا امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہونے جا رہی ہے، اور اس کے بعد دو بڑے امریکی بینک ڈیفالٹ ہو گئے۔

ان میں سے پہلا بینک سیلیکون ویلی بینک (ایس وی بی) ہے جو ٹیکنالوجی کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کرتا تھا جبکہ دوسرا سگنیچر بینک ہے جو کارپوریٹ سیکٹر کو سرمایہ فراہم کرتا تھا۔

یہ 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد پہلا واقعہ ہے کہ کسی امریکی بینک نے ڈیفالٹ کیا ہے، امریکی حکام نے جمعہ کو اس بینک کو اپنی تحویل میں لے لیا، سگنیچر بینک کو اتوار کے دن تحویل میں لے لیا گیا۔

ان دونوں بینکوں کے ڈیفالٹ نے مغربی ممالک کے بینکوں کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، تمام سٹاک مارکیٹس میں بینکوں کے شئیرز گر گئے، یورپین بینکنگ انڈیکس میں 0.7 فیصد کمی واقعی ہوئی جبکہ ٹریژری ییلڈز کے 30 بیسس پوائنٹس کم ہو گئے ہیں۔

امریکہ کے مزید بینکوں کے حصص بھی گرے ہیں، ان میں فرسٹ ریپبلک بینک کے حصص 18 فیصد، ویسٹرن الائنس بینکراپ کے 7.5 فیصد اور پیک ویسٹ بینکراپ کے حصص میں 16 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اب یورپ کا ایک بڑا بینک کریڈٹ سوئس بحران کا شکار ہو گیا ہے جس کے حصص کی قدر 24 فیصد گر گئی اور بینک کے 130 ارب ڈالر ہوا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔

کریڈٹ سوئس نے سوئس نیشنل بینک سے پبلک سپورٹ کی اپیل کی تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رہے مگر وہاں سے مکمل خاموشی رہی جس نے بحران کو مزید بڑھا دیا۔

کریڈٹ سوئس نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ کے مرکزی بینک سے 54 ارب ڈالر قرض لے رہا ہے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔

اس اعلان کے بعد بینک کے حصص میں 24 فیصد اضافہ ہو گیا جس سے بینک کو اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والے نقصانات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

یہ پہلا بینک ہے جسے 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد ایمرجنسی لائف لائن فراہم کی گئی ہے، اس سے بینک کے شیئرز کی قیمت میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن پانچ سالہ انشورنس (کریڈٹ ڈیفالٹ سواپس) 128 بیسس پوائنٹس کم ہو گئی ہے۔

ایشیا کی اسٹاک مارکیٹس بھی اس بحران سے محفوظ نہ رہ سکیں اور لوگ اپنا سرمایہ سونے، بانڈز اور ڈالرز کی طرف منتقل کرنے لگے۔

بینکنگ کے نظام میں یہ سارا بحران اس وقت شروع ہوا جب امریکہ کے مرکزی بینک نے افراط زر میں کمی لانے کے لیے شرح سود میں بڑا اضافہ کیا۔

معاشی ماہرین کا اندازہ تھا کہ امریکی فیڈرل ریزو شرح سود میں مزید اضافہ کرے گا لیکن بینکوں کے نظام میں آنے والے بحران کے بعد یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ شاید ایسا نہ ہو۔

اگر شرح سود میں مزید اضافہ نہیں کیا جاتا تو افراط زر کی بڑھتی لہر کو روکنا مشکل ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ مارکیٹس میں ابھی تک غیریقینی کی صورتحال برقرار ہے۔

- Advertisement -
مجاہد خٹک
مجاہد خٹکhttp://narratives.com.pk
مجاہد خٹک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

دیکھیں مزید
متعلقہ مضامین