تحریر : لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی
ترجمہ : مجاہد خٹک
قوموں کی زندگی میں ایسے مشکل مراحل آ جاتے ہیں جب سیاست کے سنہری اصولوں پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان بھی ایسے ہی برے دور سے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔
خارجہ امور کے ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ بڑی طاقتوں سے معاملات کرتے وقت ہمیشہ توازن قائم رکھنا چاہیئے۔
ان کا کہنا ہے کہ کمزور اقوام کو کسی ایک کی گود میں بیٹھنے کے بجائے اپنے راستے کھلے رکھنے چاہئیں کیونکہ سفارت کاری کے میدان میں معاملات کو سیاہ اور سفید کے پیمانے پر نہیں تولا جاتا۔
تاہم جب یہ دھمکی آمیز سوال سامنے آ جائے کہ ‘تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف؟’ تو ہم وہ سب کچھ ترک کر دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو مارگن تھا، ہنری کسنجر اور دیگر بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسرز، ماہرین اور اس پر عمل کرنے والوں سے سیکھا ہوتا ہے۔
ایسے مشکل وقت میں علوم سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات، مذاکرات کا فن، حکمت عملی کے بنیادی اصول، دل و دماغ کی مضبوطی کے ساتھ پوکر یا شطرنج کھیلنے جیسے معاملات کے پس منظر میں کارفرما علم کام آتا ہے۔
سخت دباؤ میں بڑے فیصلے لینے والے فرد یا افراد کی ممکنہ صلاحیتوں میں بکھرے خلا پر نظر دوڑانے کے ساتھ ساتھ دروں بینی کا وقت بھی یہی ہوتا ہے۔
جب ایسا وقت آن پڑے تو ضروری ہو جاتا ہے کہ درپیش مسائل کو فوری طور پر اوپر بیان کردہ شعبہ ہائے جات کے ماہرین کے سپرد کر دیا جائے یا اس بارے میں ان سے گفتگو کر لی جائے۔
یہ اعصاب شکن وقت ہم سے طاقتور جمہوری فضا، مستحکم معیشت اور پختہ اداراتی فیصلہ سازی کے طریق کار جیسے معاملات کا تقاضا کرتا ہے، خوش قسمتی سے ہمارے دفتر خارجہ کے سینئر حکام موثر سفارشات پیش کرنے کے لیے مکمل طور پر تربیت یافتہ ہیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایسے مشکل سوالات اٹھانے سے قبل عالمی طاقت سیاسی افق پر میں ایک آمر کو تیار کر کے، معیشت کو فیٹف، آئی ایم ایف اور عالمی بنک جیسی زنجیروں میں جکڑ کے اور اندرونی و بیرونی سیکیورٹی خطرات پیدا کر کے اپنے مقاصد کے لیے میدان ہموار کرنا یقینی بنا لے تو کیا ہوگا؟
ایسے حالات میں ہمارے پاس عالمی طاقتوں کے طے کردہ ایک مخصوص رخ پر چلنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔
یہ سب کچھ ایک فسانہ بھی ہو سکتا ہے اور حقیقت بھی لیکن لوگوں کو اپنا ذہن بنانے کے لیے بہت سے اشارے نظر آ رہے ہیں۔
یہ سب کہنے کے بعد ہم خارجہ پالیسی کے اصل موضوع کی جانب چلتے ہیں جس کا تعلق ہماری سیاسی قیادت اور دیگر اداروں کے پاس موجود مختلف راستوں سے ہے جن میں سے انہوں نے انتخاب کرنا ہے۔
امریکہ اور مغرب سے نجات کا کوئی راستہ نہیں
کچھ تجزیہ کار اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ کو اس خطے میں کوئی دلچسپی نہیں رہے گی۔
اس غلط فہمی کی بنیاد کچھ امریکی اعلانات بنے لیکن جلد ہی افغانستان، وسط ایشیاء اور پاکستان میں ان کے مفادات کا تسلسل روز روشن کی طرح عیاں ہوتا گیا، چنانچہ انکل سام اپنی تمام تر سازشوں سمیت پاکستان میں لوٹ آیا۔
بروس ریڈل کی کتاب ‘Deadly Embrace’ اور ڈینیل مارکی کی کتاب ‘No Exit from Pakistan’ ساری کہانی بیان کر دیتی ہیں۔
ویسے بھی وہ پاکستان کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں جبکہ ان کے عزائم میں وسطی، مغربی اور جنوبی ایشیاء میں چین کے بڑھتے معاشی و سیاسی اثرورسوخ کو روکنا شامل ہے۔
اس مقصد کے لیے مغرب اس خطے میں بھارت کو چین کے خلاف ایک سدراہ کے طور پر تیار کر رہا ہے، اس لیے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے لیے ایک دردسر بنا رہے۔
واشنگٹن ویسے بھی افغانستان میں اپنی فوجی مہم جوئی ترک کرنے کے معاملے میں پاکستان کے کردار پر تحفظات کا شکار ہے، امریکہ کبھی بھی طالبان حکومت کو افغانستان میں پرامن طریقے سے اپنی گرفت مضبوط کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
پاکستان کا مخمصہ یہ ہے کہ اس کے تمام معاشی، سیاسی و سماجی مفادات اور تعلقات گہرے انداز میں امریکہ، مغربی یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ منسلک ہیں۔
یہ تمام خطے آپس میں اس طرح جڑے ہیں کہ یا تو ہمیں ان تمام کو مکمل طور پر اپنانا ہو گا یا پھر ان سب کو یکسر ترک کرنا پڑے گا جو ہم کسی طور نہیں کر سکتے۔
ہماری برآمدات اور افرادی قوت، معیشت کے لیے ناگزیر ترسیلات زر، تعلیم، زبان کی فہم وغیرہ، تمام اس مجبوری کی غماز ہیں۔
علاوہ ازیں یہ بلاک، بشمول بھارت، اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے فیٹف، آئی ایم ایف، عالمی بنک اور ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں کے ذریعے ہمیں ناک رگڑنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
ہماری غیرمستحکم معاشی صورتحال، جو میرے خیال میں معیشت کی تباہی پر مامور کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں تخلیق کی گئی ہے، نے ہماری آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کو تقریباً صفر کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ منطق اور حقائق کی روشنی میں درست ثابت ہوتے ہیں جن کے خیال میں پاکستان کے لیے مغربی بلاک سے دور ہو جانا ممکن نہیں ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کر کے ترک کر دیا ہے، ہم اس کے متعلق ذرا شمہ بھی کچھ نہیں کرتے۔
ہمارے پاس اس دور میں ہمیشہ چین کے ساتھ معاشی، فوجی اور سیاسی تعلقات کو پروان چڑھانا ممکن رہا ہے جب امریکہ نے ہمیں اس کی اجازت دی ہوئی تھی یا پھر وہ ہمیں روکنے کے قابل نہیں تھا۔
ہمارے دفترخارجہ کی تعریف بنتی ہے کہ اس نے ایک نفیس سا توازن قائم رکھا لیکن اس سے آگے جانا ناممکن نہ سہی، مشکل ضرور تھا۔
اس وقت بھی ہمارے بنیادی مفادات، جن میں سی پیک، چین، روس، افغانستان، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات شامل ہیں، اس خطے میں امریکی مفادات سے متصادم ہیں۔
ہمیں کشمیر پر نرم رویہ رکھنے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے بہلایا پھسلایا جا رہا ہے تاکہ دلی کو ان کے مشترکہ دشمن چین کے خلاف یکسوئی نصیب ہو سکے۔
مشرق وسطیٰ میں تناؤ کم کرنے کے لیے ہمارے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے رجحانات بھی زیریں سطح پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
امکانی طور پر ہمیں ایک بار پھر اسی مشکل سوال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ ‘کیا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف؟’
مشرق کی جانب سفر کرنے کے امکانات
عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور چین و روس گروپ کے درمیان مقابلہ، جسے مناقشہ بھی کہا جا سکتا ہے، نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ نے ہچکچاہٹ کے شکار روس کو فوجی طور پر یوکرین میں الجھا لیا ہے، وہ اسے معاشی، سیاسی اور فوجی سطح پر کمزور تر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس تمام تر قضیے کا وزن بدنصیب یوکرینی برداشت کر رہے ہیں۔
امریکہ نے انڈو پیسفک خطے میں تائیوان کے معاملے پر چین کو جنگی طور پر ملوث کرنے کی کوشش کی ہے جو عارضی طور پر ناکام ہو گئی ہے۔
لیکن امریکہ باز آنے والا نہیں ہے اور اس سے پہلے کہ چین فوجی طور پر انتہائی طاقتور ہو جائے، امریکہ کی جانب سے مستقبل قریب میں مزید اشتعال انگیزی کا امکان ہے۔
چین اپنے حساب سے چل رہا ہے اور امکانی طور پر وہ روس کی مدد کرتا رہے گا تاکہ امریکہ اور مغرب یوکرین میں ہی الجھا رہے۔
فوجی قوت کا اظہار تو جاری رہے گا تاہم اس دوران روس اور چین عالمی اقتصادی نظام میں دراڑیں ڈالنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں تاکہ وہ پیٹروڈالر کے تسلط اور یکطرفہ پابندیوں سے نجات حاصل کر سکیں۔
اگرچہ اس میں بہت وقت لگے گا لیکن ڈالر کی حکمرانی بدلنے اور دیگر ذرائع سے کم از کم جزوی طور پر اس کا متبادل پیدا کرنے کی کوششیں قرضوں کے بوجھ تلے دبے، پابندیوں کے شکار اور ترقی پذیر ممالک کے لیے نیک شگون ہے۔
جب تک اس سیاسی و معاشی تنازع کا فیصلہ نہیں ہوتا، اس وقت تک دنیا کی کئی اقوام کو معاشی ابتری کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے دوررس سیاسی اثرات ہوں گے۔
پاکستان اس صورتحال کے سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے اور ہمارے مشرق کی جانب جھکاؤ کے انتخاب کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔
طاقتور اقوام اپنے سیاسی اور معاشی اثرورسوخ کو مختلف قسم کی پالیسیوں اور حکمت عملی سے مزید پھیلا رہی ہیں۔
جارح مزاج امریکہ اور آمادہ بر اصلاح چین ہمارے لیے انتخاب کو محدود اور مشکل تر بنا رہے ہیں۔
امریکہ سے براہ راست ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش میں چین، روس کے استثنیٰ کے ساتھ، اپنے اتحادیوں اور پارٹنرز کو سر پر منڈلاتی معاشی و سیاسی افراتفری سے بچانے کے موڈ میں نہیں ہے۔
پاکستان اور سری لنکا کے حالات اس کا بین ثبوت ہیں، ان ممالک کی نااہل قیادت دیوار کے پار یہ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی کہ کس طرح معیشت میں کرائے کے قاتلوں کو جگہ دی جا رہی ہے جن کا مقصد صورتحال کو مکمل تباہی کے قریب تر لے جانا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کے پاس امریکہ کی جانب دیکھنے کے سوا کوئی اور چارہ باقی نہیں رہتا۔
جیوپالیٹکس کرتے وقت جغرافیہ اور تاریخ کو کبھی نہیں بھولنا چاہیئے، چین، بھارت، ایران، افغانستان، وسط ایشیائی ریاستیں، روس اور مشرق وسطیٰ ہماری جغرافیائی قربت میں موجود ہیں۔
یہ ایک وسیع خطہ بنتا ہے جس میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی اور عالمی دولت کا کم از کم تیسرا حصہ موجود ہے۔
ان تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینے سے وسیع تر معاشی اور سیاسی امکانات کے در وا ہو سکتے ہیں اور ایسا کرنا زیادہ کام نہیں ہے، اس میں صرف بھارت کی ہٹ دھرمی ایک استثنیٰ ہے۔
چین ایک نئی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے جس کی پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات کی تاریخ موجود ہے۔ اب جبکہ چین اپنا معاشی اثرورسوخ پھیلا رہا ہے، ہمارے لیے اس کے ساتھ کھڑے رہنے کا یہ بہترین وقت ہے۔
بدلتی عالمی صورتحال میں واشنگٹن کو خوش کرنے کے لیے چین کی مخالفت مول لینا بہت فاش غلطی ہو گی، پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ اتارچڑھاؤ سے بھری پڑی ہے، اگر صاف الفاظ میں کہا جائے تو یہ قطعاً قابل اعتماد نہیں ہے۔
اگرچہ عالمی طاقتوں کے لیے جغرافیہ زیادہ اہم نہیں ہوتا، پھر بھی ہمیں تقابلی جائزہ لیتے وقت امریکہ سے فاصلے کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
امید کی کرن
فیصلہ کرنے والی شخصیات کی رہنمائی کے لیے اس مشکل وقت میں کچھ روشن اشارے موجود ہیں۔
مشرقی یورپ، جرمنی اور کسی حد تک فرانس جیسے ممالک امریکہ کے متکبرانہ رویے سے خوش نہیں ہیں۔ ترکی نے بھی امریکہ کی بعض حکم نما ہدایات کے خلاف مزاحمت دکھائی ہے۔
ان ممالک کی قیادت اور عوام انکل سام کی عالمی تسلط پر مبنی پالیسیوں کے خلاف اظہار نفرت کر رہی ہے، مشرق وسطیٰ کے ممالک کی قیادت کرنے والا سعودی عرب ایک سے زیادہ مرتبہ امریکی تبصروں پر خفگی کا اظہار کر چکا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو پروان چڑھا رہے ہیں، قطر پہلے ہی ایران اور افغانستان کی جانب مثبت اشارے دے چکا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت بھی ملکی مفادات کے مدنظر اپنے نئے تزویراتی اتحادی امریکہ کی متعدد توقعات سے انکار کر چکا ہے۔
اس سب کا مطلب ہے کہ ہمیں اس جادوئی جال سے نجات پانے کا موقع میسر ہے جو امریکہ نے مہارت سے ہمارے اردگرد بنا ہوا ہے اور ہماری نااہلی کو استعمال کر کے ہمیں معاشی بربادی کے موجودہ بھنور میں دھکیل رہا ہے۔
اگر ہم چند یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ تعلقات توڑے بغیر اپنا رخ مشرق کی جانب کرتے ہیں تو اس ہمیں ایک بڑا سماجی اور معاشی جھٹکا لگ سکتا ہے، البتہ اس کا طویل المدت فائدہ ہو گا اور ہم ایران، افغانستان، وسط ایشیائی ریاستوں، چین، روس اور ترکی سے جڑ کر ایسے پانیوں میں سفر کر سکیں گے جہاں مدوجزر بہت کم ہوں گے۔
بھارت ایک غیریقینی عنصر کے طور پر موجود رہے گا لیکن اگر ہم سی پیک اور بی آر آئی سے جڑے ممالک کے ساتھ اپنے خواب منسلک کر دیں تو بھارت کے انداز میں بھی نرمی آ سکتی ہے۔
یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیئے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارا رویہ معاندانہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم ایسی کھلی مخالفت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
البتہ ہماری خارجہ پالیسی میں ایسی تبدیلی کی کاوشوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جائے گا، حالات کے جس جبر کا ہم شکار ہیں، اس کے مدنظر ہمیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔
اوپر بیان کردہ نکات موجودہ صورتحال اور اس میں موجود مواقع کے متعلق ایک خام اور نامکمل تبصرہ ہیں، بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کے ماہرین بحث و تمحیص کے ذریعے اسے مزید نفاست عطا کر سکتے ہیں۔
میری جانب سے یہ ایک عاجزانہ کوشش ہے جسے ایک ابتدائی تصور کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔